افغانستان: دہشت گردی کے خلاف؟

اداریہ
31 اکتوبر ، 2024

افغانستان میں تین سال پہلے طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کا مسئلہ از سرنو شروع ہوا جس میں مسلسل شدت دیکھی جارہی ہے ۔اس سے پہلے کے افغان دور حکومت میں پاکستان نے دو بڑے فوجی آپریشن کرکے دہشت گردی کے مسئلے پر مکمل طور پر قابو پالیا تھا لیکن افغانستان میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد سے پاکستان میں کالعدم تحریک طالبان دوبارہ سرگرم ہوگئی اور اب آئے دن دہشت گردوں اور پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ایک دوسرے کے خلاف کارروائیاں سامنے آتی رہتی ہیں جن میں عموماً دونوں فریقوں کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ پاکستان کو شکایت ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کو افغانستان میں محفوظ ٹھکانے حاصل ہیں تاہم افغان حکومت اس کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کرتی ہے کہ وہ پاکستان سمیت کسی پڑوسی ملک میں دہشت گردی کی حمایت نہیں کرتی ۔ گزشتہ روز بھی پاکستان میں افغان ناظم الامور سردار احمد شکیب نے اسلام آباد میں’’ پاکستان، افغانستان اور وسطی ایشیا کے درمیان مضبوط اقتصادی تعلقات‘‘ کے موضوع پر ہونے والے ایک سیمینارمیں صراحت کی ہے کہ ’’ہم کسی افغان شہری کو کسی ہمسایہ ملک میں جہاد کی اجازت نہیں دیتے، ہم نے فتویٰ جاری کیا ہے کہ پاکستان میں جہاد نہیں ہوسکتا۔ ہماری پالیسی انتہائی واضح ہے کہ ہم غیر ریاستی عناصر کی حمایت نہیں کرتے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ افغانستان سے پاکستان میں دراندازی کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں،لیکن ہم اس پر قابو پانا چاہیں تب بھی یہ ممکن نہیں‘‘ ۔ اس بیان میں افغان ناظم الامور نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ افغانستان سے پاکستان میں دراندازی ہوتی ہے اور افغان حکومت اس پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہو پارہی ہے۔اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ پاکستان اور افغانستان باہمی مذاکرات کے ذریعے ایک جامع حکمت عملی مرتب کرکے اس کے مطابق مربوط کارروائی کریں تاکہ خطے سے دہشت گردی ہمیشہ کیلئے ختم ہو۔