کھلے دل سے جسٹس یحییٰ آفریدی کا تقر ر قبول ہے، بیرسٹر گوہر

31 اکتوبر ، 2024
انصار عباسی
اسلام آباد … پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پی ٹی آئی پورے دل سے جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس آف پاکستان تسلیم کرتی ہے۔ دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پارٹی پالیسی کے مطابق ہم 26ویں ترمیم کو دل سے مسترد کرتے ہیں لیکن نئے تعینات ہونے والے چیف جسٹس کو دل سے قبول کرتے ہیں۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی کی تقرری اگرچہ 26ویں ترمیم کی وجہ سے ہوئی ہے لیکن پارٹی انہیں بطور چیف جسٹس قبول کرتی ہے۔ پارٹی ذرائع کے مطابق، پارٹی کی سیاسی کمیٹی کے کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ تحریک انصاف کو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے استعفیٰ کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ جب بیرسٹر گوہر سے پوچھا گیا تو انہوں نے اس کی تردید کی اور کہا کہ ایسا کوئی آپشن پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی کے زیر غور نہیں، تاہم چند روز قبل فیصلہ کیا تھا کہ پی ٹی آئی جوڈیشل کمیشن میں شامل ہوگی۔ سینئر وکیل اور پی ٹی آئی کے سینیٹر حامد خان نے جسٹس یحییٰ آفریدی پر زور دیا تھا کہ وہ چیف جسٹس عہدہ جلد سنبھالنے کی سرکاری پیشکش مسترد کر دیں، اور انہیں مشورہ دیا کہ وہ اپنی ’’جائز باری‘‘ کا انتظار کریں۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ ’’یحییٰ آفریدی کو اپنی باری کا انتظار کرنا چاہئے اور اپنی عزت اور نام بچانا چاہئے۔ سرکاری پیشکش عدلیہ میں نفاق پیدا کرنے کیلئے کی گئی ہے۔’’ حامد خان اور پی ٹی آئی کے کئی رہنما توقع کر رہے تھے کہ وکلاء برادری میں حامد خان گروپ بدھ کو ہونے والے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے الیکشن میں کامیابی حاصل کرے گا لیکن، یہ گروپ 26ویں آئینی ترمیم اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے تقرر کے حامی احسن بھون گروپ کے مقابلے میں ہار گیا۔ حامد خان گروپ 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف ہے اور جسٹس یحییٰ آفریدی کی بطور چیف جسٹس تقرری کے خلاف وکلاء تحریک شروع کرنے کا اعلان کر چکا ہے۔ پی ٹی آئی، جس نے 26ویں آئینی ترمیم کی مخالفت اور اسے مسترد کیا تھا، نے 26ویں ترمیم کے تحت تشکیل دی جانے والی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کیلئے اپنی نامزدگیاں دی تھیں لیکن کمیٹی کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا، جس نے جسٹس یحییٰ کو چیف جسٹس کے طور پر منتخب کیا۔ کہا گیا کہ پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے نئے چیف جسٹس کی تقرری کے عمل کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ اس کا مطلب 26ویں آئینی ترمیم کو قبول کرنا ہوگا۔ پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی اپنے گزشتہ اجلاس میں جوڈیشل کمیشن میں شامل ہونے کے معاملے پر منقسم تھی۔ یہ کمیشن ججوں کی تقرری کے علاوہ آئینی بینچز کی تشکیل کا اختیار بھی رکھتا ہے۔