IMFسے طے پانےوالامیکرواکنامک مالیاتی فریم ورک ناکام

31 اکتوبر ، 2024

اسلام آباد( مہتاب حیدر) پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ میکرو اکنامک اور مالیاتی فریم ورک ناکام ہو گیا ہے، جس سے اسلام آباد کے پاس کوئی اور راستہ نہیں بچا سوائے اس کے کہ وہ پہلے جائزے کے موقع پر آئی ایم ایف کے عملے سے نظرثانی کی درخواست کرے جو 7 ارب ڈالر کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلیٹی (ای ایف ایف) کے تحت کیا گیا تھا۔میکرو اکنامک اعداد و شمار میں بڑی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں جن میں حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو اور سی پی آئی پر مبنی افراط زر شامل ہیں، جس سے پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) کے دوران نامیاتی نمو کی شرح میں تبدیلی ہوئی اور اس کے نتیجے میں ایف بی آر کے لئے ٹیکس میں تقریباً 321 ارب روپے کی کمی کی پیش گوئی کی جا رہی ہےکیونکہ بڑے پیمانے کی مینوفیکچرنگ (ایل ایس ایم) کی شرح نمو 3.5 فیصد پر طے کی گئی تھی لیکن یہ گر کر 1.3 فیصد پر آ گئی ہے۔ جی ڈی پی کی شرح 3.5 فیصد تھی جسے کم کرکے 3 فیصد کر دیا گیا ، ایف بی آر کو دوسری سہ ماہی میں 230 ارب خسارہ ہوسکتا ہے۔نیز غیر ٹیکس وصولیوں کا ہدف بھی 100 سے 200 ارب روپے کے بڑے فرق سے حاصل نہیں کیا جا سکا۔دونوں ٹیکس اور غیر ٹیکس کی کمی سے رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں مالیاتی محاذ پر 500 سے 600 ارب روپے کا فرق پیدا ہو سکتا ہے۔یہ دلیل دی جاتی ہے کہ شرح سود میں کمی سے قرض کی خدمت کے بوجھ میں کمی آئے گی، لیکن بڑھتے ہوئے قرض کے ذخائر کے باعث اسلام آباد کے لیے قرض کی خدمت میں خاطر خواہ کمی ممکن نہیں ہو سکے گی۔ اس صورتحال میں توقع کی جا رہی ہے کہ پاک سیکرٹریٹ میں واقع کیو بلاک (وزارت خزانہ) کے مکینوں کے مطابق مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) کے آئندہ شیڈول اجلاس میں شرح سود میں 200 بیسس پوائنٹس کی کمی ہو سکتی ہے جو 4 نومبر 2024 کو منعقد ہونے جا رہا ہے، جس سے یہ 17.5 فیصد سے کم ہو کر 15.5 فیصد پر آ سکتی ہے۔ اگر سی پی آئی پر مبنی افراط زر میں کمی جاری رہی تو دسمبر 2024 میں پالیسی ریٹ میں مزید کمی کی توقع کی جا رہی ہے۔پھر بھی، حکومت کو اپنے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں کمی کرنی پڑے گی جو 1100 ارب روپے پر موجود ہے حالانکہ بجٹ اعلان کے موقع پر اسے 1250 ارب روپے پر تصور کیا گیا تھا۔اعلیٰ سرکاری ذرائع نے جمعرات کو منتخب صحافیوں کے ایک گروپ کو تصدیق کی کہ میکرو اکنامک فریم ورک میں بڑی تبدیلیاں آئیں اور اقتصادی اہداف کے لئے استعمال ہونے والے مفروضات بدل گئے۔سی پی آئی پر مبنی افراط زر کا ہدف 12.9 فیصد تھا لیکن یہ پہلی سہ ماہی (جولائی-ستمبر) کے دوران 9.2 فیصد تک گر گیا اور ستمبر 2024 میں مزید کم ہو کر 6.7 فیصد تک پہنچ گیا۔درآمدات کی شرح نمو 16.9 فیصد پر طے کی گئی تھی لیکن یہ پہلی سہ ماہی میں 8فیصد پر آ گئی۔ بڑے پیمانے کی مینوفیکچرنگ (ایل ایس ایم) کی شرح نمو 3.5 فیصد پر طے کی گئی تھی لیکن یہ گر کر موجودہ سطحوں پر 1.3 فیصد پر آ گئی۔حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو بجٹ سازی کے موقع پر 3.5 فیصد پر رکھی گئی تھی لیکن اب اسے کم کر کے رواں مالی سال کے لیے 3 فیصد کر دیا گیا ہے۔خدشہ ہے کہ ایف بی آر کو دوسری سہ ماہی (اکتوبر-دسمبر) میں 230 ارب روپے کے خسارے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔