انسداد دہشت گردی ترمیمی بل

اداریہ
03 نومبر ، 2024

پاکستان کو کئی عشروں سے دہشت گردی کے مسئلے کا سامنا ہے جس کی ایک بڑی وجہ افغانستان پر دو بڑی طاقتوں کی یکے بعد دیگرے فوج کشی رہی تاہم پچھلی دہائی میں دو ہمہ گیر فوجی آپریشنوں کے بعد صورت حال پر بڑی حد تک قابو پالیا گیا تھا لیکن حالیہ برسوں میں ملک کے دو صوبوں بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں دہشت گردی کے واقعات میں ایک بار پھر بڑی تیزی سے اضافہ دیکھا جارہا ہے جس کے باعث غیرمعمولی اقدامات کا عمل میں لایا جانا ضروری ہوگیا ہے۔آج سے دس سال پہلے 16 دسمبر2014 کوپشاور کے آرمی پبلک اسکول میں کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے ہاتھوں معصوم بچوں کے قتل عام کی ہولناک اور وحشیانہ کارروائی کے بعد پارلیمان نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997میں وقت کے تقاضوں کے مطابق ضروری ترامیم کرکے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو زیادہ مؤثر اختیارات دیے تھے جس کے نتیجے میں دہشت گردی کا قلع قمع کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی لیکن قانون میں یہ ترامیم چونکہ دو سال کی مدت کے لیے تھیں لہٰذا 2016 میں 1997کا انسداد دہشت گردی ایکٹ اپنی ابتدائی شکل میں ازسرنو بحال ہوگیا جبکہ تین سال پہلے افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے بعد تحریک طالبان افغانستان کی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ توقع تھی کہ اس کے بعد پاکستان میں بھی مستقل امن کی راہ ہموار ہوگی لیکن نتائج اس امید کے بالکل برخلاف رہے ۔ اس صورت حال سے بلوچستان میں ملک دشمن طاقتوں کے آلہ کار عناصر کو بھی شہ ملی اور یوں دونوں صوبوں میں دہشت گردی کی بڑی کارروائیاں روز کا معمول بن گئیں۔ اس تناظر میں گزشتہ روز وفاقی حکومت نے انسداد دہشت گردی قانون میں مزید ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا ہے۔ مذکورہ ترمیم کے تحت مسلح افواج اور سول سکیورٹی اداروں کوجرائم میں ملوث شخص کو تین ماہ تک حراست میں رکھنے کا اختیار ہوگا اور ملکی سلامتی، دفاع اور امنِ عامہ سے متعلق جرائم پر سیکورٹی ادارے کسی بھی شخص کو تین ماہ تک حراست میں رکھ سکیں گے۔ اس کے علاوہ تاوان، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور اغوا سے متعلق جرم پر تین ماہ سے زائد زیر حراست رکھا جا سکے گا۔ جرائم میں ملوث شخص کی تین ماہ سے زائد حراست یا نظربندی کی صورت میں اسے شفاف ٹرائل کا حق دیا جائے گا۔ بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ تین ماہ سے زائد نظربندی آرٹیکل 10 اے کے تحت ہوگی جبکہ مسلح افواج یا سول سکیورٹی ادارے اگر کسی شخص کو زیر حراست رکھنے کا حکم دیں تو اس پر الزامات کی تحقیقات جے آئی ٹی کرے گی جس میں ایس پی پولیس، انٹیلی جنس ایجنسیز، سول آرمڈ فورسز اور مسلح افواج، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نمائندے شامل ہوں گے۔دہشت گردی اور دوسرے سنگین جرائم کی غیرمعمولی صورت حال کے خاتمے کے لیے غیر معمولی قانون سازی اور اختیارات اگرچہ وقت کی ضرورت ہیں اور دنیا بھر میں ہنگامی حالات کے قوانین معمول کے حالات سے مختلف ہوتے ہیں لیکن ان کے استعمال میں بھی انسانی حقوق کی پامالی سے بہرصورت گریز کیا جانا چاہیے۔ زیر حراست لیے جانے والے افراد کے لواحقین کو بے خبر رکھ کر لاپتا کردینے کا غیرانسانی طریق کار مستقل طور پر ترک کردیا جانا چاہیے کیونکہ تین ماہ کے لیے قانوناً گرفتاری کا اختیار مل جانے کے بعد اس کا کوئی ادنیٰ جواز بھی باقی نہیں رہتا ۔ یہ طریقہ نہ صرف بجائے خود صریح ظلم ہے بلکہ اس کے نتیجے میںگمشدہ کردیے جانے والے شہری کے تمام عزیز و اقارب میں ملک کے خلاف باغیانہ جذبات جنم لیتے ہیں۔ گمراہ کن پروپیگنڈے کے باعث ملک دشمنی کے راستے پر چل پڑنے والے افراد کی غلط فہمیاں دور کرکے حب الوطنی کی راہ پر لانے کی تدابیر کا اختیار کیا جانا بھی ضروری ہے کیونکہ حالات میں پائیدار بہتری اسی طرح لائی جاسکتی ہے ۔