مقبوضہ جموں و کشمیر میں صحافی مشکل حالات میں پیشہ وارانہ فرائض انجام دینے پر مجبور

03 نومبر ، 2024

اسلام آباد (اے پی پی) بھارت کے غیر قانونیزیر تسلط جموں و کشمیر میں صحافی انتہائی مشکل حالات میں اپنے پیشہ وارانہ فرائض انجام دینے پر مجبور ہیں۔ انہیں سچائی سامنے لانے اور زمینی حقائق کی رپورٹنگ پر شدید نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے آج صحافیوں کیخلاف جرائم سے استثنیٰ کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی کی زیر قیادت بھارتی حکومت مقبوضہ علاقے میں میڈیا کا گلا گھونٹنے کیلئے کالے قوانین اور غیر جمہوری ہتھکنڈوں کا بے دریغ استعمال کر رہی ہے۔ رپورٹ میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ عرفان معراج، ماجد حیدری اور سجاد گل جیسے ممتاز کشمیری صحافیوں کو اس وقت کالے قوانین کے تحت نظربندی کا سامنا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بی جے پی کی زیر قیادت بھارتی حکومت کی جانب سے 5اگست 2019ء کے بعد سے جب مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی تھی صحافیوں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ مقبوضہ علاقے میں صحافیوں کو بھارتی فورسز کے اہلکاروں کے ہاتھوں مسلسل قتل، گرفتاریوں اور دھمکیوں کا سامنا ہے۔ بھارت نے 2020ء میں نام نہاد میڈیا پالیسی متعارف کرانے کے بعد مقبوضہ علاقے میں آزاد صحافت تقریباً ناممکن بنا دی ہے۔ بھارتی حکومت آزاد صحافت پر قدغنیں عائد کر کے دراصل علاقے کے زمینی حقائق کو دنیا سے چھپانا چاہتی ہے لہٰذابین الاقوامی برادری کو چاہئے کہ وہ کشمیری صحافیوں کیخلاف بھارتی ہتھکنڈوں کا نوٹس لے ۔ بی جے پی حکومت نے 2014میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے آصف سلطان، فہد شاہ، عرفان معراج، ماجد حیدری، سجاد گل، منان ڈار، قاضی شبلی، کامران یوسف، بلتیج پنوں، سنتوش یادو، سومارو ناگ، سریندر سنگھ، ونود ورما، آنند تیلٹمبڈے، گوتم نولکھا، صدیق کپن، تنویر وارثی، آشوتوش نیگی، پربیر پورکایست، راجیو شرما، محمد جمال الدین، وسیم اکرم تیاگی اور ذاکر علی تیاگی سمیت درجنوں صحافیوں کو گرفتار کیاہے۔