PTI قائل کرےعمران کی رہائی سے ٹرمپ کو کیا فائدہ ،حسین حقانی

08 نومبر ، 2024

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے سابق سفیر برائے امریکا حسین حقانی نے کہا ہےکہ جو چیز ان کی انتخابی مہم میں ترجیح نہیں رہی وہ کیسے صدر بننے کے بعد ترجیح ہوجائے گی،ٹرمپ ہر کام میں اپنا فائدہ دیکھتے ہیں یا صدر بننے کے بعد وہ امریکہ کا فائدہ بھی دیکھیں گے تحریک انصاف کو اس بات پر قائل کرنا پڑے گا کہ ٹرمپ کو یا امریکہ کو کیا فائدہ ہوگا کہ وہ عمران خان کی رہائی میں دلچسپی لے،ٹرمپ نے منتخب ہونے کے بعد تین ملکوں کے سربراہوں سے بات کی ہے ایک مودی، دوسرا سعودی ولی عہد اور تیسرے اسرائیل کے وزیراعظم ان میں سے کسی نے عمران خان نے سفارش نہیں کی ہوگی۔سابق سفیر برائے امریکا حسین حقانی نے کہا کہ 2017 میں خواجہ آصف جو وزیر دفاع تھے انہوں نے الزام لگایا تھا کہ صدر ٹرمپ کی جو پالیسی جنوبی ایشیا کے بارے میں آئی تھی وہ میں نے لکھی اس پر بھی میں نے کہا تھا کہ امریکہ کو سمجھنے کی کوشش کریں عمران خان کو بھی یہی سمجھانا چاہتا ہوں کہ ان کے کان کچے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صدر بائیڈن جیسا سیاسی طور پر تجربہ کار آدمی کسی کے کان بھرنے سے پالیسی بنائے گا۔ممکن ہے میری تحریروں سے کسی نے رائے بنائی ہو لیکن میں نہ کبھی لابسٹ تھا نہ ہوں اگر لابسٹ ہوتا تو تحریک انصاف سے بہت سے پیسے لے کر اُن کو یہ امید دلاتا کہ تمہارا کام ہوجائے گا اتنے پیسے مجھے دے دو جیسے کئی لوگ کر رہے ہیں۔ٹرمپ جب صدر تھے تو کیا انہوں نے کسی بھی ملک میں کسی معروف شخصیت کو قید سے چھڑانے کی کوشش کی ذاتی تعلقات کی بنیاد پر ہوسکتا ہے وہ کسی کو ایک عاد کال کر دیں یا ٹوئٹ کردیں لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ اس وقت امریکہ کے پاس پاکستان پر دباؤ ڈالنے کا کون سا ذریعہ موجود ہے۔ آئی ایم ایف کا پروگرام منظور ہوچکا ہے جبکہ امریکہ اب اکیلہ فیصلہ ساز بھی نہیں رہا۔ایک صورت ہوسکتی ہے ٹرمپ کی ایک کتاب ہے آرٹ آف دی ڈیل وہ ہمیشہ یہ کہتے ہیں میں ڈیل کراسکتا ہوں اگر وہ پاکستان کے ارباب اقتدار اور عمران خان کی ڈیل کرانے کی کوششیں کریں اگر ایسا ہوتا تو عمران خان کا بیانیہ ختم ہوجائے گا کہ وہ کبھی کسی سے مذاکرات کر کے اپنے موقف سے دستبرار نہیں ہوتے میرا نہیں خیال یہ امیدیں حقیقت پر مبنی ہیں۔ زلفی بخاری اور بہت سے ڈاکٹر کوشش کریں گے لیکن ٹرمپ کی کہیں ایسی کوئی ترجیح نظر نہیں آرہی ہے۔جو چیز ان کی انتخابی مہم میں ترجیح نہیں رہی وہ کیسے صدر بننے کے بعد ترجیح ہوجائے گی۔ پاکستان میں واویلا اب بھی ہو رہا ہے اور اگر کوئی بیان ٹرمپ دے دیں گے تو شاید تب بھی واویلا ہولیکن ٹرمپ ہر کام میں اپنا فائدہ دیکھتے ہیں یا صدر بننے کے بعد وہ امریکہ کا فائدہ بھی دیکھیں گے تحریک انصاف کو اس بات پر قائل کرنا پڑے گا کہ ٹرمپ کو یا امریکہ کو کیا فائدہ ہوگا عمران خان کی رہائی میں دلچسپی لے۔سب جانتے ہیں اختیار کس کے پاس ہے جیسے نو مئی کوٹھنڈے مزاج کا مظاہرہ کیا تھا تو اب ایک ٹوئٹ یا بیان سے کیا پریشان ہوں گے۔ٹرمپ نے منتخب ہونے کے بعد تین ملکوں کے سربراہوں سے بات کی ہے ایک مودی، دوسرا سعودی ولی عہد اور تیسرے اسرائیل کے وزیراعظم ان میں سے کسی نے عمران خان نے سفارش نہیں کی ہوگی۔عمران خان سمجھتے ہیں بائیڈن کے کان بھرے گئے اب امریکہ نیوٹرل ہوجائے گا یہ ان کی امیدیں ہیں۔پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام پر امریکہ پاکستان کی انڈرسٹنڈنگ ہوچکی ہے اس پر کوئی بے چینی نہیں ہوگی چین کے معاملے میں امریکہ سب پر دباؤ ڈالتا ہے اس حوالے سے پاکستان پر دباؤ آئے گا۔آئی ایس ایس خراسان کی وہ کافی بڑا چیلنج بن رہی ہے اور افغانستان میں موجود ہے انہوں نے پاکستان پر بھی نظریں جما رکھی ہیں اور پچھلے دنوں آئی ایس ایس کے لوگ امریکہ میں پکڑے گئے ہیں اگر اس پر ٹرمپ نے توجہ دے دی تو پھر پاکستان سے متعلق ٹرمپ کی دلچسپی پیدا ہوسکتی ہے۔ٹرمپ اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ دوسرے ممالک میں انہیں جمہوریت پروان چڑھانی چاہئے۔میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کی جیت سے عمران خان اور ان کی جماعت کی امیدیں وابستہ ہوگئی ہیں اور عمران خان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی کامیابی کو خوش آئند قرار دیا جارہا ہے۔مجھے امید ہے صدر ٹرمپ کم از کم نیوٹرل ہوں گے اور بائیڈن کی طرح نہیں ہوں گے جنہوں نے باجوہ کی طرف سے حسین حقانی کو استعمال کر کے میرے خلاف لابنگ کی جس پر انہوں نے یقین کر لیا ہے میری رہائی کا معاملہ امریکہ سے نہیں بلکہ پاکستان میں ہی مکمل ہوگا جبکہ زلفی بخاری نے ٹرمپ کی ٹیم سے ملنے کی تیاریاں کر لی ہیں تاکہ وہ عمران خان کی رہائی کی بات کرسکیں انصار عباسی کی خبر کے مطابق زلفی بخاری کہتے ہیں کہ ٹرمپ عمران خان کو سنائی گئی سزاؤں پر تشویش کا اظہار بھی کرچکے ہیں اور عمران خان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ترجمان دفتر خارجہ زہرا بلوچ نے کہا ہے کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت پر مبنی ہیں۔صحافی کامران یوسف کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ نے جب 2016 میں صدر بنے تھے تو انہوں نے جیت کے فوراً بعد سیکیورٹی لائن پر کال کر کے اُس وقت کے وزیراعظم نوازشریف سے بات کی تھی اور پاکستان کو عظیم ملک قرار دیا تھا۔ ٹرمپ کی جانب سے نوازشریف کو حلف اٹھانے سے پہلے فون کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ افغانستان میں تعینات ہزاروں امریکی فوجی ایک بے نتیجہ جنگ میں پھنسے ہوئے تھے۔ماہر امور جنوبی ایشیا مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ عمران خان کے حامیوں کو امید تھی کہ ٹرمپ ان کی صورتحال پر توجہ دلانے کے لیے اپنی انتخابی مہم کے دوران کچھ نہ کچھ بیان دیں گے اور عمران خان کے حامیوں میں چھ لاکھ سے زائد افراد پر مشتمل پاکستانی امریکی کمیونٹی بھی شامل ہے جب ٹرمپ صدر تھے تو انہوں نے عمران خان سے ملاقاتیں کیں تاہم یہ ملاقاتیں ذاتی دوستی کے بجائے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے عمل کو آگے بڑھانے کی کوششوں کا حصہ تھیں اور اب ٹرمپ کی خاموشی سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ تو عمران خان نہ ہی پاکستان ٹرمپ کی ترجیحات میں شامل ہیں۔