وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نےکلائمیٹ فنانس گول میز کانفرنس سے خطاب میں موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے ہوئے اثرات سے کرۂ ارض کو بچانے کیلئے جن امور کی نشاندہی کی انہیں تحفظ انسانیت کی ضرورت کہا جاسکتاہے۔موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے اقوام متحدہ کے فریم ورک پر عمل کی ضرورت بھرپور طور پر اجاگر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ ملکوں کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے آگے آنا ہوگا۔ ترقی پذیر ملکوں کو موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کیلئےترقیاتی ملکوں کی مدد درکار ہے اور 2030ء تک موسمیاتی تبدیلی کے اثرات و نتائج سے نکلنے کے لئے ترقی پذیر ممالک کو 6800ارب ڈالر کی ضرورت رہے گی۔وزیراعظم نے اس سنگین مسئلے کی طرف بھی عالمی برادری کی توجہ مبذول کرائی کہ قرضوں کی شکل میں سرمائے کی فراہمی ترقی پذیر ممالک کو قرضوں کے جال کی طرف دھکیل دیتی ہے جو ایک طرح سے موت کا جال ہے۔ منگل کے روز آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں پاکستان کی میزبانی میں منعقدہ کانفرنس آف پارٹیز (کوپ 29) ایسی تجاویز و سفارشات کے سلسلے کا حصہ ہے جن کے ذریعے عالمی رہنما اس صورتحال کے منفی اثرات سے کرۂ ارض کو بچانے کی سعی کرتے ہیں جو زمین کو سورج کی نقصان دہ شعاعوں کے اثرات سے بچانے والی اوزونتہہ میں شگاف آنے کے باعث پیدا ہوئے ۔ یہ شگاف کاربن کے غیر معمولی اخراج کے باعث نمایاں ہوا اسے بڑھنے سے روکنے اور صورتحال میں بہتری لانے کیلئے کاربن کا اخراج روکنے اور شجرکاری جیسے ماحول دوست اقدامات ضروری ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ گلوبل وارمنگ سمیت قدرتی آفات کی صورت میں ظاہر ہونے والے اثرات کے ذمہ دار وہ بڑے صنعتی اور ترقی یافتہ ممالک ہیں جنہوں نے کاربن کے بے تحاشا اخراج کے منفی پہلوئوں کو نظرانداز کیا مگر ان کے اثرات جن ملکوں میں قدرتی آفات کی صورت میں زیادہ ظاہر ہوئے وہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک ہیں جن کا کاربن کے اخراج کی ذمہ داری میں بہت کم حصہ ہے۔ پاکستان کو ماضی قریب میں دو مرتبہ تباہ کن سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 2022ء میں پاکستان کے کل رقبے کا ایک تہائی حصہ بدترین سیلاب سے متاثر ہوا جس کے بعد اس ملک کو تمام ترقیاتی اور کلائمیٹ فنڈبنیادی ریلیف اور انسانی کاوشوں کے لئے صرف کرنا پڑا۔ ان کے نقصانات سے بحالی کی کاوشیں اب تک جاری ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اس باب میں اقوام متحدہ کے فریم ورک کے مطابق خصوصی فنڈز مختص کرنے کے مطالبے کے ساتھ یہ ضرورت اجاگر کی کہ فنانسنگ کے نام پر قرض کی فراہمی کی بجائے غیر قرضہ جاتی طریقے سے متاثرہ ملکوں کی مدد کی سبیل نکالی جائے۔ میاں شہباز شریف نے انسانیت کی بقا کے لئے گلیشیرز کے تحفظ پر زور دیا جن کاایک لحاظ سے پاکستان کو گڑھ کہا جاسکتا ہے۔ 7ہزار گلیشیرز میں سے تین ہزار سے زائد جھیلوں میں تبدیل ہوجانے کے باعث سیلاب کا شدید خطرہ ہے۔ ان گلیشیرز کے تحفظ کے لئے عالمی برادری کے ساتھ مل کر اقدامات آگے بڑھانے کے ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے تجویز دی کہ یو این ایف سی سی، آئی ڈی سیز کے ہر 15روز بعد جائزہ کے لئے کمیٹی تشکیل دے۔ میاں شہباز شریف نے اس کانفرنس کے سائیڈ لائن پر مختلف ممالک کے رہنمائوں سے مفید ملاقاتیں کیں جبکہ رہنمائوں کے ردّعمل اور تاثرات سے واضح ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے بچائو کا مفید لائحہ عمل سامنے آئے گا۔ اس باب میں جہاں اقوام متحدہ کو موثر کردار ادا کرنا ہے وہاں بڑے ممالک کی ماحول دوست پالیسیوں کو بھی خاص دخل ہوگا۔ جنہوں نے کاربن کا اخراج کم کرنے کے اقدامات کے طور پر ماحول دوست گاڑیوں کی تیاری سمیت متعدد اقدامات شروع کردیئے ہیں۔
سُنا یہ ہے کہ سابق مقتدر کوہَوائوں میں سفر یاد آرہا ہے جو لے جاتا تھا دفتر اور گھر تک وہ ہیلی کاپٹر یاد آرہا...
سری لنکانے جن تامل جتھوں کیخلاف طویل جنگ لڑی انھیں بھارت کی مکمل مالی پشت پناہی حاصل رہی ، کئی دہائیوں تک...
آج سے چار سال قبل ماہ رمضان کے بائیسویں روزہ کو والد محترم ایم طفیل جنہیں سب پا جی کے نام سے پکارتے تھے چند...
ملک کی سیاسی جماعتوں میں اختلاف رائے جمہوریت کاحسن ہے۔ اختلافات تو ایک گھرکے افراد کے درمیان بھی ہوجاتے ہیں...
وہ مجھے کہتی رہی مجھے خاص ہی رہنے دے، مجھے عام نہ کر ! لیکن ہم اپنی عادت سے مجبور تھے ، ہم سمجھتے رہ گئے کہ خاص...
مریم نواز کی حکومت کے ایک سال کے دوران سرکاری شاہراہوں اور املاک پر کی جانے والی تجاوزات ختم کرنے کیلئے کیے...
افسوس صد افسوس! ہم اور ہمارا بوسیدہ نظام بُری طرح ناکام ہو رہا ہے۔ حکمران اقتدار کے نشے میں چور ، طاقتور اسی...
بلوچ علیحدگی پسند اور انکےآقابلوچستان کے خلاف متحرک ہیں اور اپنے مذموم مقاصد کیلئے بے گناہ شہریوں کو موت کے...