صدر ٹرمپ اور بدلتا امریکہ

احمد وقاص ریاض
30 نومبر ، 2024
ریاست ہائےمتحدہ امریکہ ہمیشہ سے مختلف قوموں اور نسلوں کا مرکب رہا ہے۔ ابتدا میں یورپی اقوام سے آنے والے لوگ امریکی سرزمین پر آباد ہوئے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف حصوں سے لوگ امریکہ آئے۔ ان میں افریقی غلام، ایشیائی، لاطینی اور مشرق وسطیٰ کے لوگ شامل تھے۔ ان تارکین وطن نے امریکی معاشرتی اور ثقافتی منظرنامے کو بڑی حد تک تبدیل کردیا۔تارکین وطن کی تاریخ میں کئی موڑ آئے ۔ 19ویں اور 20ویں صدی میں یورپ سے آنے والے لاکھوں افراد نے امریکہ میں پناہ لی۔ 1965 میں امیگریشن اینڈ نیشنلٹی ایکٹ کے ذریعے قوانین میں تبدیلی کی گئی، جس سے دنیا بھر کے لوگوں کیلئے امریکہ آنا آسان ہوگیا۔ اس کے بعد لاطینی امریکہ اور ایشیا سے لوگوں کی بڑی تعداد امریکہ پہنچی، جس نے امریکی معاشرتی اور معاشی ڈھانچے میں گہری تبدیلیاں کیں۔تارکین وطن نے بہت محنت کی، وہ نوکریوں اور تعلیم میں کافی آگے نکل گئے یہاں تک کہ امریکی معاشرے میں ان کا بڑا حصہ شمار ہونے لگا۔ لاطینیوں کی بڑی تعداد تو اپنی گوری رنگت کی وجہ سےامریکیوں میں رچ بس گئی اور خود کو سفید فام امریکی ہی تصور کرنے لگی۔جبکہ اسکے برعکس سیاہ فام تارکین وطن کی صورتحال کچھ مختلف رہی۔ انھیں تعلیم اور روزگار کے زیادہ مواقع میسر نہ آسکے یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں ہونے والے جرائم میں زیادہ تر سیاہ فام ہی ملوث نظر آتے ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ تارکین وطن کا امریکہ میں اثرو رسوخ اتنا بڑھ گیا کہ وہاں کے مقامی سفید فام باشندوں کو اپنا وجود متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہونے لگا۔ اسی خدشے کے تناظر میں ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاست کا ایک مرکزی موضوع امیگریشن بنا رہا ۔ 2016میں جب وہ امریکی صدارت کیلئےامیدوار بنے، تو انھوں نےانتخابی مہم میں امیگریشن کے مسئلے کو سرفہرست رکھا۔ ان کا موقف تھا کہ امریکہ میں غیر قانونی امیگریشن کی وجہ سے امریکہ کی معیشت اور سماجی نظام کو نقصان پہنچ رہا ہے، اور اس پر قابو پانا ضروری ہے۔ٹرمپ نے اپنی مہم میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ غیر قانونی تارکین وطن کو ملک سے نکال کر ایک مضبوط اور محفوظ سرحد قائم کریں گے۔ انکے مطابق، غیر قانونی امیگریشن امریکہ کی ثقافت، معیشت اور سیکیورٹی کیلئے خطرہ تھا۔ یہ موقف انکے حامیوں کے درمیان مقبول ہوا، خاص طور پر ان سفید فام امریکیوں میں جو محسوس کرتے تھے کہ امریکی معاشرتی اقدار اور روزگار کی صورتحال امیگریشن کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے۔سفید فام امریکیوں کی طرف سے ٹرمپ کی حمایت کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کا معاشی اور سماجی مقام خطرے میں ہے۔ خاص طور پر سفید فام درمیانے طبقے کے افراد، جن کی زندگیوں میں انضمام اور عالمی معیشت کی تبدیلیوں کی وجہ سے مشکلات آئی ہیں، ٹرمپ کی پالیسیوں میں اپنے مسائل کا حل دیکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ قانونی و غیر قانونی امیگریشن کی وجہ سے امریکیوں کیلئے روزگار کے مواقع کم ہو رہے ہیں اور اس سے انکے تشخص اور اقدار کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو یقین دلایا کہ وہ امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائیں گے اور اس میں امیگریشن کو سخت کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ انکی پالیسیوں نے ان سفید فام امریکیوں کو اپنی طرف مائل کیا، جو نئے تارکین وطن کو اپنے وسائل کے مقابلے میں ایک خطرہ سمجھتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ غیر قانونی امیگریشن کی روک تھام وقت کی ضرورت ہے۔خاص طور پر اس وقت جب امریکہ میں تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ٹرمپ کے حامی یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کو اپنے سرحدی قوانین کو سخت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ غیر قانونی امیگریشن کو روکا جا سکے۔ دوسری طرف انکے مخالفین یہ دلیل دیتے ہیں کہ امیگریشن امریکہ کی معیشت کیلئے مفید ہے اور تارکین وطن کے خلاف سخت پالیسیاں نسل پرستی اور عدم برداشت کو فروغ دیتی ہیں۔ حالیہ امریکی انتخابات میں سفید فام طلبااور دائیں بازو کے طبقہ کی طرف سے ڈونلڈ ٹرمپ کو بڑی تعداد میں ووٹ ملنے کی کئی وجوہات ہیں۔ ان وجوہات کا تجزیہ کرتے وقت ہمیں امریکہ کی سیاسی، سماجی اور معاشی صورتحال کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ ٹرمپ کا امیگریشن پر سخت موقف، جیسے ’’میکسیکو دیوار بنانا‘‘ اور غیر قانونی امیگریشن کو روکنا، ان سفید فام افراد کیلئے اہم تھا جو محسوس کرتے تھے کہ امریکہ میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے افراد انکی ملازمتوں اور وسائل پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اس موقف سے ان افراد کو یہ احساس ہوتا تھا کہ انکے معاشی مفادات اور معاشرتی سلامتی کی حفاظت کی جا رہی ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ میں قوم پرستی اور سفید فام شناخت کو خاصی اہمیت دی گئی۔ ٹرمپ نے اپنے پیغام میں امریکہ کو ’’پہلے‘‘ رکھنے کی بات کی، جس سے سفید فام طبقے کے افراد اور قوم پرست گروہوں کو یہ محسوس ہوا کہ انکی ثقافت اور معاشرتی اقدار کو دوبارہ اہمیت دی جا رہی ہے۔ ان میں سے بہت سے افراد کا خیال تھا کہ امریکہ کی سیاسی اور ثقافتی شناخت کو بین الاقوامی اثرات یا اقلیتی گروپوں کے بڑھتے ہوئے اثرات سے خطرہ ہے۔ ٹرمپ کی پالیسیوں میں امریکی معاشی تحفظ کو اہمیت دی گئی، خاص طور پر سفید فام افراد، جن میں سے بیشتر ورکنگ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں، ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیوں سے متاثر ہوئے کیونکہ ان پالیسیوں میں انکے روزگار کو تحفظ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ’’امریکہ فرسٹ‘‘ کی پالیسی نے امریکی صنعتوں کو بچانے کی بات کی، جس نے ان لوگوں کو متاثر کیا جو نوکریوں کے بحران یا عالمی معیشت کی وجہ سے پریشان تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں ووٹ دینے والے سفید فام اور دائیں بازو کے افراد کی حمایت کا تعلق بہت سے عوامل سے ہے، جن میں اقتصادی تحفظ، ثقافتی شناخت، سماجی اقدار، اور قومی سیاست کے بارے میں اضطراب شامل ہے۔ امریکہ میں چند دہائیوں سے تارکین وطن کی قانونی اور غیر قانونی آمد سے سفید فام باشندے جو پہلے ہی سیاہ فام ، امریکی جن کو غلام بنا کر لائے تھے، سےتنگ تھے اور اب ایشیائی اور لاطینی امیگرینٹس کی مسلسل آمد سے انکو محسوس ہوا کہ ڈائیورسٹی اپنی جگہ ہم اپنے ہی ملک میں اقلیت بن کر رہ جائیں گے اور بیرونی نظریات اور کلچر ہم پر حاوی ہو جائے گا۔ ٹرمپ نے اپنے پیغام میں انکے خدشات اور توقعات کو آئینہ دکھایا، جسکی وجہ سے ان کے بہت سے حامیوں نے انہیں ووٹ دیا۔ اس کے علاوہ، امریکی معاشرتی تناؤ اور سیاسی پولرائزیشن نے انکی حمایت کو مزید تقویت دی۔ ٹرمپ نے مذہبی و روایتی خاندانی اقدار اور سماجی قدامت پسندی پر زور دیا ، انکی پالیسیوں میں مذہبی گروپوں اور قدامت پسندوں کی آزادی کے تحفظ کے حوالے سے واضح پوزیشن شامل تھی، جسکی جھلک ان کی آئندہ کیبنٹ چوائس میں نظر آتی ہے۔ انہوں نے حکومتی انتظامی ڈھانچے میں بڑی تبدیلیوں کا بھی عندیہ دیا جس کیلئے ایلون مسک کی سربراہی میں کام شروع کر دیا گیا ہے ۔صدر ٹرمپ نے اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے طور پر خود کو پیش کیا اور تاثر دیا کہ وہ واشنگٹن میں موجود سیاستدانوں اور بیورو کریسی سے مختلف ہیں۔ انکے پیروکاروں کا ماننا تھا کہ ٹرمپ ایک ایماندار، عوامی آدمی ہیں جو انہیں نمائندگی دے سکتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار میں آنے کے بعد اپنے کیے گئے تمام وعدوں اور پالیسوں پر عمل درآمد کر پائیں گے یا نہیں اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا۔
( صاحبِ مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)