اسلام آباد (طاہر خلیل) اسلام آباد میں احتجاج کے چوتھے سلسلے کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت کو شدید اختلافات کا سامنا ہے ،پارٹی کے بیشتر رہنما بشریٰ بی بی کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں ہیں، پارٹی میں بشریٰ بی بی کی قیادت کے معاملے پر انتشار بڑھ رہا ہے، حتمی فیصلہ خان صاحب کو کرنا ہے کہ پارٹی میں بشریٰ بی بی کی حیثیت کیا ہے اور ان کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا۔ سیاسی مستقبل کے حوالے سے پی ٹی آئی کا کردار اسلام آباد کی نیشنل سکیورٹی میٹنگ کا سب سے اہم موضوع بنا رہا، وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں پی ٹی آئی کے سیاسی مستقبل کے ضمن میں کوئی واضح فیصلہ تو سامنے نہیں آیا لیکن وزیراعظم کا یہ کہنا کہ پی ٹی آئی کوئی سیاسی جماعت نہیں یہ فتنہ ہے اور ایسا جتھہ ہے جو سیاست کے نام پر انتشار اور معیشت کی بربادی کا سبب بن رہا ہے، جاری اعلامیے سے واضح ہوگیا کہ لشکریوں کا محاسبہ ہوگا اور یہ طے کر لیا گیا کہ آئندہ ایسی صورتحال کا سامنا نہ ہو۔ وفاقی حکومت لشکریوں کے خلاف انتظامی اور قانونی سطح کے اقدامات کے ساتھ سیاسی اقدامات بھی کرنے جارہی ہے۔ اسلام آباد میں سرکاری سطح پر خیبر پختونخوا میں گورنر راج کے نفاذ کے حوالے سے کوئی بڑا فیصلہ سامنے نہیں آیا تاہم وزیر دفاع خواجہ آصف کا بیان ہے کہ کے پی میں گورنر رول کے نفاذ کی تجویز زیر غور نہیں، جس کا مطلب ہے کہ حکومت اب دیگر آپشنز کی جانب قدم بڑھا رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کی سوچ غالب آرہی ہے کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت نہیں فتنہ ہے جس کا خاتمہ ضروری ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف پر پابندی لگنے والی ہے؟ حکومت کے پاس تحریک انصاف پر پابندی کیلئے بہت سے ٹھوس شواہد موجود ہیں جیسے کس طرح پولیس اور لاء انفورسمنٹ ایجنسز پر پٹرول بم اور خطرناک ہتھیاروں سے حملے ہوتے رہے۔ ان کی ریلیوں میں تربیت یافتہ افغان باشندوں کو لایا جاتا رہا اور اسلام آباد پر ہر یلغار سے پہلے کیسے منظم منصوبہ بندی کی جاتی رہی اور صوبائی حکومت کے سرکاری وسائل کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا خوش آئند پہلو ہے کہ تمام شواہد کی موجودگی کے باوجود حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ مستقبل میں ایسے واقعات اور لشکریوں کی اسلام آباد پر یلغار روکنے کیلئے ٹاسک فورس مستقل بنیادوں پر کام کرے گی۔ بلوچستان کے بعد پنجاب اسمبلی میں بھی پی ٹی آئی پر پابندی کیلئے قرارداد جمع کرائی جا چکی ہے، اس کے بعد آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے بھی ایسے ہی مطالبات سامنے آنے والے ہیں۔ ایسی قراردادیں سیاسی دبائو میں اضافہ کا سبب تو بن سکتی ہیں تاہم اس ضمن میں دانشمندی، تحمل، بردباری سے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں سابق چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی اور بیرسٹر وسیم سجاد کی سنجیدہ آراء کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ وقت آگیا ہے کہ سخت فیصلوں کی بجائے درست فیصلے کئے جائیں اور سیاسی جماعت پر پابندی مسائل کا حل نہیں۔ اس سے ملک میں سیاسی پولیرائزیشن میں اضافہ ہو گا۔
اسلام آباد امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا ہے کہ امریکا انسانیت اور جمہوریت کا دشمن ہے۔ اسرائیل...
ارمچی چین نے شمال مغربی سنکیانگ ویغور خود مختار علاقے کے کون لون پہاڑوں میں برفباری میں اضافے سے متعلق تجربے...
لاس اینجلس لاس اینجلس میں تاریخ کی بدترین آگ، مرنے والوں کی تعداد 16، 13لاپتا ہیں۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے...
اسلام آبادسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے سابق ڈپٹی سیکرٹری قومی اسمبلی محمد عاشق کے انتقال پر گہرے...
کنساشا عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ جنوری 2024 سے 5 جنوری 2025 تک 20 افریقی ممالک میں ایم پاکس کے 14 ہزار 700 مصدقہ...
کراچی پاکستان میں انٹرنیٹ رفتار کی سست روی کی اصل وجہ وی پی این کا بے انتہا استعمال نہیں بلکہ جعلی خبروں،...
اسلام آباد سی ڈی اے بورڈنے سپر مارکیٹ سیکٹر F-6میں واقع پی ایس او اور اعوان ایسوسی ایٹس کو لیز پر دیئے گئے...
کراچی امریکا، سوئیڈن، سعودی عرب امارات سمیت 7 ملکوں سے مزید 52 پاکستانیوں کو مختلف الزامات کے تحت بے دخل کر...