ملٹری کورٹس سے سزائیں آئین سے متصادم ، PTI، فیصلہ چیلنج کرنے کا اعلان

22 دسمبر ، 2024

اسلام آباد (خبر نگار،جنگ نیوز ) تحریک انصاف نے ملٹری کورٹس کی جانب سے سنائی گئی سزائوں کو مسترد ، انہیں آئین اور قانون سے متصادم اورانہیں چیلنج کرنے کا اعلان کردیا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان نے اپنے ردعمل میں کہا کہ ملٹری کورٹس سے سزائیں آئین سے متصادم ہیں۔ سویلینز کیخلاف ملٹری کورٹس کے سزائوں کا فیصلہ مسترد کرتے ہیں، سزائیں انصاف کے اصولوں کے منافی ہیں، زیر حراست افراد عام شہری ہیں اور ان پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا، فوجی عدالتیں جو عام شہریوں کو سزائیں سناتی ہیں بنیادی طور پر کینگرو عدالتیں ہیں،فوجی عدالتیں قانونی طور پر ریاست کی عدالتی طاقت کی شراکت دار نہیں ہو سکتیں، مسلح افواج ریاست کے انتظامی اختیار کا حصہ ہیں ، ایسی عدالتوں کا قیام عام شہریوں سمیت عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے، ایسے فیصلوں سے آئین کی بنیادی خصوصیت طاقت کی تقسیم کی نفی ہوئی ہے۔ عمر ایوب خان نے اپنے بیان میں سپریم کورٹ کے پی ایل ڈی 1999 / 504 فیصلے کا حوالہ بھی دیا، سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ ملٹری کورٹس کا فیصلہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، ان ٹرائلز میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے،ہم فیصلوں کی مذمت کرتے ہیں، ہر فورم پر چیلنج کریں گے،سپریم کورٹ کے فیصلے نے مایوس کیا، شہری اپنے بنیادی حق سے محروم کر دیئے گئے ہیں ،عدالتی نظام مکمل مفلوج ہو چکا ہے جو ملک کیلئے المیہ ہے ، پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آئینی بنچ کے ذریعے ملٹری کورٹس بحال کروا کر عمران خان کو ملٹری کورٹس کے سامنے پیش کئے جانے کا ارادہ ہے، اگر بانی پی ٹی آئی کو فوجی عدالتوں میں پیش کیا گیا تو یہ بہت برا دن ہوگا، مقتدرہ سے اپیل کرتا ہوں ایسا مت کریں پوری دنیا میں ہمارا مذاق بنے گا، سویلین کا ملٹری ٹرائل ایک بالکل غیر آئینی عمل ہے اور ایسا کر کے بنیادی حقوق مکمل طور پر مجروح کئے گئے ،فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹائل کرنا آئین کا مذاق ہے ،سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ فوجی عدالت نے 25 افراد کے مقدمات کے فیصلے سنائے جوغیرآئینی اور غیر قانونی ہیں، اس اپیل کا کیا مقصد ہے اگر اس کے زیر سماعت ہونے پربھی فیصلے ہوجائیں جنہیں سزائیں ملی ہیں کم از کم خلاصی تو ملی اب وہ جیل جائیں گے ،ابھی تک کسی کو رہا نہیں کیا گیا، فوجی تنصیب پر حملے کا الزام ہے تو فوجی جج کیسے کیس سن سکتا ہے، فوجی عدالتیں اپنے ملازمین کی ڈسپلن پر کارروائی کرسکتی ہیں لیکن فوجی عدالتیں سویلنز کا ٹرائل نہیں کرسکتیں۔عدلیہ کو 26ویں ترمیم کے ذریعے طابع کرنیکی کوشش کی گئی، سپریم کورٹ کی فل کورٹ 26ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ کرے اور سپریم کورٹ کا اس اپیل میں حتمی فیصلہ انتہائی اہم ہوگا۔