خیبرپختونخوا حکومت 12معاون خصوصی مقرر و ریکارڈ توڑ دئیے،خزانے پر بوجھ

11 جنوری ، 2025

پشاور( ارشدعزیزملک )تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا حکومت نے 12معاون خصوصی مقرر کرکے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے 33 رکنی کابینہ صوبائی خزانے پر بوجھ بن گئی ۔ آئین کی 18ویں ترمیم کے برعکس 12معاون خصوصی کی تقرری متنازعہ بن گئی ہے ۔آئینی ماہرین نے معاونین خصوصی کی تقرری کو آئین کی 18ویں ترمیم کی روح کے منافی قرار دیا ہے۔ خیبرپختو نخوا کابینہ کا حجم گیارہ فیصد سے بڑھ کر 23فیصد تک پہنچ چکا ہے جبکہ پنجاب کابینہ کا ممبران اسمبلی کے حساب سے حجم 5.6فیصد ہے اسی طرح سندھ کابینہ کا حجم 20فیصد کے قریب ہے وزیراعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے خصوصی معاونین کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ نتظامی امور مؤثر طریقے سے چلانے کے لئے کابینہ میں توسیع ناگزیر تھی ، اس وقت موجودہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت کی کابینہ میں 15 وزراء، 5 مشیر اور 12 خصوصی معاونین شامل ہیں۔آئین کی 18ویں ترمیم کے آرٹیکل 130(6) کے مطابق، وفاقی کابینہ کا حجم پارلیمنٹ کے کل اراکین کا 11 فیصد ہوگا۔ صوبوں میں بھی کابینہ کی تعداد 15 اراکین یا 11 فیصد تک محدود ہوگی، جو بھی تعداد زیادہ ہو۔ وزیراعلیٰ بالکل وزیراعظم کی طرح، 5 سے زیادہ مشیر مقرر کرنے کے مجاز نہیں ہوں گے۔ اس کے علاوہ، خصوصی معاونین کی تقرری ایک متنازع موضوع بنی ہوئی ہے۔چاروں صوبائی حکومتوںکے تجزیہ کےدوران انکشاف ہوا ہے کہ خیبرپختونخوا کابینہ 12خصوصی معاونین کی تقرری کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ سندھ 10معاونین خصوصی کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے اسی طرح پنجاب میں تین معاون خصوصی تعینات ہیں جبکہ بلوچستان میں کوئی معاون خصوصی نہیں۔پنجاب اسمبلی میں ممبران کی تعداد 371ہے جبکہ پنجاب میں وزیراعلی مریم نواز کی قیادت میں پنجاب حکومت میں ایک سینئر وزیر ٗ16 وزراء اورتین معاون خصوصی شامل ہیں یوں کابینہ کی مجموعی تعداد 21کے قریب ہے ۔سندھ اسمبلی میں اراکین کی تعداد 168ہے جبکہ وزیرعلی مراد علی شاہ کی قیادت میں صوبائی کابینہ میں 18وزراء ٗ5معاون خصوصی اور 10معاون خصوصی شامل ہیں یوں کابینہ کی تعداد 34بنتی ہے البتہ سندھ کے وزیراعلی کے 8ترجمان بھی ہیں ۔اسی طرح بلوچستان اسمبلی میں ممبران کی تعداد 65ہے اور وزیراعلی میر سرفراز بگٹی کی قیادت میں صوبائی کابینہ میں13وزراء اورچار مشیر شامل ہیں یوں کابینہ کی تعداد 18ہے البتہ کوئی معاون خصوصی مقررنہیں کیا گیا ۔ خیبرپختونخوا اسمبلی میں ممبران کی تعداد 145ہے جبکہ موجودہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت کی کابینہ میں 15 وزراء، 5 مشیر اور 12 خصوصی معاونین شامل ہیں۔مشیروں اور خصوصی معاونین کی تقرری سے متعلق خیبرپختو نخوا ترمیمی ایکٹ 1989 کے مطابق، وزیراعلیٰ کی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں مدد کے لیے، گورنر وزیراعلیٰ کے مشورے پر جتنے افراد کو ضروری سمجھے، انہیں مشیر یا خصوصی معاون کے طور پر مقرر کر سکتا ہے۔وزیراعلیٰ کے مشیر یا خصوصی معاون، وزیراعلیٰ کی صوابدید تک اپنے عہدے پر فائز رہیں گے اور انہیں وہ معاوضے اور مراعات حاصل ہوں گی جو وزیراعلیٰ مقرر کرے گا۔محکمہ خزانہ کے ایک اہلکار نے اس نمائندے کو بتایا کہ ہر وزیر، مشیر اور خصوصی معاون کی تنخواہ اور الاؤنسز تقریباً 2 لاکھ 20 ہزار روپے ماہانہ ہیںجبکہ گھر کا کرایہ بھی 2لاکھ روپے ماہانہ ہے ۔کابینہ میں شامل وزراء میں ارشد ایوب خان، فضل حکیم خان، محمد عدنان قادری، عاقب اللہ خان، محمد سجاد، مینا خان، فضل شکور، نذیر احمد عباسی، پختون یار خان، آفتاب عالم خان آفریدی، خلیق الرحمٰن، فیصل خان ترکئی، محمد ظہیر شاہ، سید قاسم علی شاہ اور سید فخر جہاں شامل ہیں جبکہ مشیروں میں مزمل اسلم، محمد علی سیف، زاہد چن زیب، احتشام علی اور بریگیڈیئر (ر) محمد مصدق عباسی شامل ہیں ۔جبکہ عبدالکریم خان، لیاقت علی خان، امجد علی، محمد سہیل آفریدی، مصور خان، نیک محمد خان، ہمایوں خان، طفیل انجم، رنگیز احمد، طارق محمود خان سدوزئی، شفقات ایاز اور محمد اسرارمعاون خصوصی ہیں ۔سابق ایڈوکیٹ جنرل اور معروف قانون دان شمائل بٹ نے معاون خصوصی کی تقرری کو آئین کی روح کی خلاف ورزی قراردیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ نے کابینہ کے لئے ایک حد مقرر کی تھی تاکہ اخراجات کم ہوں لیکن سیاستدانوں نے پابندی کا مذاق اڑاتے ہوئے متبادل راستہ اپنا لیا ہے جو آئین کی روح کے منافی ہے ۔انھوں نے کہا کہ صوبائی حکومتوں نے صوبائی قانون سازی کرکے خصوصی معاون مقرر کررکھے ہیں جس کی آئین میں اجازت نہیں۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے خصوصی معاونین کی تقرریوں کو برقرار رکھتے ہوئے یہ رائے دی تھی کہ خصوصی معاونین کی تقرری کا اختیارکا طریقہ کار مرتب کیا جانا چاہیے اور پارلیمنٹ کو مناسب وقت پر ان کی اہلیت اور تقرری کے معیار کو طے کرنا چاہیے۔معروف قانون دان علی گوہر نے کابینہ کے اجلاسوں میں معاون خصوصی کی شرکت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ آئین کی 18ویں ترمیم کے آرٹیکل 130(6) کے مطابق، وفاقی کابینہ کا حجم پارلیمنٹ کے کل اراکین کا 11 فیصد ہوگا۔ صوبوں میں بھی کابینہ کی تعداد 15 اراکین یا 11 فیصد تک محدود ہوگی، جو بھی تعداد زیادہ ہو۔ وزیراعلیٰ بالکل وزیراعظم کی طرح، 5 سے زیادہ مشیر مقرر کرنے کے مجاز نہیں ہوں گے۔