ایسے قوانین بنائیں جو عوامی ضروریات پوری کریں، یوسف رضا گیلانی،مستحکم جمہوریت ، علاقائی ترقی عزم اعلامیہ ، CPAکانفرنس

09 فروری ، 2025

لاہور(مقصود اعوان، رب نواز خان )قائم مقام صدر سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ایسے قوانین بنائیں جو عوامی ضروریات پوری کریں، انہوں نے ان خیالات کا اظہار لاہور میں دولتِ مشترکہ پارلیمانی ایسوسی ایشن (CPA) کی ریجنل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ، اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کہا کہ مقامی حکمرانی کے ڈھانچہ کو بااختیار بنانے کی ضرورت ہے،سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے کہا کہ پنجاب میں ماحول کے تحفظ کیلئے گرین میکانزم پر کام جاری ہے ، کانفرنس کے اعلامیہ میں مستحکم جمہوریت ،علاقائی پائیدار ترقی کے عزم کا اظہار کیا گیا ، سیدیوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پارلیمنٹ صرف قانون سازی کے ادارے نہیں بلکہ تبدیلی کے مراکز بھی ہیں، جو حکمرانی کو جدت سے جوڑتے ، سماجی انصاف کو یقینی بناتے ہیں، اور منصفانہ معاشی ترقی کو فروغ دیتے ہیں، ہم اختلافات کو کم کریں۔ مختلف نقطہ نظر کو ہم آہنگ کریں، اور ایسے قوانین بنائیں جو ہمارے عوام کی ضروریات کو پورا کریں۔ ہمیں ایسے پائیدار طرز حکمرانی کو اپنانا ہوگا جو تعاون، لچک، اور برابری کو فروغ دے۔آنے والے وقت میں کوئی بھی ملک یا ادارہ تنہا ان چیلنجز سے نہیں نمٹ سکتا۔ موسمیاتی تبدیلی، آلودگی، ٹیکنالوجی میں انقلابی تبدیلیاں، اور جامع سماجی و اقتصادی ترقی کے چیلنجز قومی سرحدوں تک محدود نہیں بلکہ علاقائی تعاون اور مشترکہ حکمت عملی کے متقاضی ہیں۔ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ یہ تاریخی اجتماع 100 سے زائد معزز مندوبین، 12 اسپیکرز، 4 ڈپٹی اسپیکرز، اور ملائشیا، مالدیپ، سری لنکا، اور پاکستان کی 22 مقننہ کے نمائندوں کو ایک پلیٹ فارم پر لایا ہے۔ خاص طور پر اسپیکر ملک محمد احمد خان اور وزیراعلیٰ محترمہ مریم نواز کی قیادت کو سراہتا ہوں جنہوں نے اس کانفرنس کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانا بھی جمہوریت کو مستحکم کرنے اور عوامی خدمات کو زیادہ موثر بنانے کے لیے ضروری ہے۔ انھوں نے کہا مجھے یقین ہے کہ ’’لاہور ڈیکلریشن‘‘ ایک رہنما اصول ثابت ہوگا، جو یہاں پیدا ہونے والی مثبت توانائی کو برقرار رکھنے اور بین الپارلیمانی و علاقائی تعاون کو مزید مستحکم کرنے میں مدد دے گا، سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کہاکہ موسمیاتی تبدیلی سماجی و اقتصادی ،عدم مساوات ، جدید پالیسی سازی، پارلیمانی سفارت کاری،علاقائی تعاون ،مقامی حکمرانی کے ڈھانچہ کو بااختیار بنانے کیلئے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے، غلط معلومات ، نفرت انگیز تقاریر، ڈیجیٹل بدعنوانی کا بدتدریج خاتمہ مشترکہ کوششوں سے ہی ممکن ہے۔سینئر صوبائی وزیر پنجاب مریم اورنگزیب نے کہا کہ تمام قومی و بین الاقوامی مندوبین کی شرکت خوش آئند ہے اور ماحول کے تحفظ کے حوالے سے کانفرنس کے انعقاد پر اسپیکر پنجاب اسمبلی کو مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ پنجاب ایک گنجان آباد صوبہ ہے، اور اسے آلودگی سے محفوظ رکھنے کیلئے وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے آتے ہی ماحولیاتی لیگل فریم ورک، کاربن کریڈٹ، گرین پنجاب پروگرام، ماحولیاتی تبدیلی کیلئے مزاحمتی اقدامات، جدید گرین ٹیکنالوجی اور گرین میکانزم پر کام شروع کر دیا تھا۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف ماحولیاتی تبدیلی اور گرین وژن کی قیادت کر رہی ہیں اور ان کے مطابق انسانی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے اجتماعی کوششیں ناگزیر ہیں۔دو اضلاع میں کامیابی کے بعد اب تمام اضلاع میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی جامع منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ گرین ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کی گئی، اور روایتی پیٹرول ٹرانسپورٹ کو ماحول دوست بنایا جا رہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب اس وقت ایئر کوالٹی انڈیکس (AQI) بحران کا شکار ہے، اور اس کی بہتری کے لیے پہلے تین ماہ منصوبہ بندی، قانون سازی، مانیٹرنگ اور سرویلنس پر کام کیا گیا۔ تمام بھٹے سنٹرل کنٹرول روم، ڈرون کیمروں اور QR کوڈز کے ذریعے زِگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کیے جا چکے ہیں، جبکہ چھوٹے صنعتی یونٹس کے ایمیشن کنٹرول سسٹمز کے لیے 2 بلین روپے کی مالی معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔پلاسٹک آلودگی کے خاتمے کے لیے زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی گئی ہے، اور 75 مائیکرون سے کم کے پلاسٹک بیگز پر مکمل پابندی عائد کی گئی ہے۔ مقامی کسانوں کو 60 فیصد سبسڈی پر سپر سیڈرز فراہم کیے جا رہے ہیں تاکہ وہ کھیتوں میں باقیات نہ جلائیں۔ لاہور ڈویژن کو پنجاب گرین کلین پروگرام کے تحت الیکٹرک ٹرانسپورٹ پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد میں 11 فیصد کمی آئی ہے، جبکہ 90000 مریضوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ بھارت کو ماحولیاتی سفارتکاری کے حوالے سے باضابطہ خط بھیجا گیا ہے تاکہ سرحد پار آلودگی کو کم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔عوام کی شرکت یقینی بنانے کے لیے یونین کونسلز میں کلیک اینڈ ویلز مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ نصاب میں گرین انفراسٹرکچر اور اسکالرشپ پروگرامز شامل کیے جا رہے ہیں ۔محکمہ تحفظ ماحول کو ڈیجیٹائز کیا جا چکا ہے، اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ٹیکنالوجی متعارف کرائی گئی ہے۔ دسمبر تک 30 ایئر کوالٹی مانیٹرز نصب کیے جا چکے ہیں، جبکہ مزید 30 مانیٹرز کی تنصیب اگلے ماہ تک مکمل ہوگی۔ جلد ہی پنجاب میں 100 AQI مانیٹرز کا ہدف مکمل کر لیا جائے گا۔ تمام اداروں کو سموگ سیزن میں ایکشن پلان کے تحت متحرک رکھا گیا۔ ای چارجنگ اسٹیشنز میٹرو بس اسٹیشنز پر قائم کیے جا رہے ہیں، جبکہ تھری وہیلرز اور ٹو وہیلرز کی ریٹروفٹنگ پر کام جاری ہے۔پلانٹ فار پاکستان کے تحت ہاؤسنگ سوسائٹیز میں درختوں کی کٹائی روکنے کے لیے گرین NOC لازمی قرار دیا گیا ہے، جبکہ 40 فیصد گرین ایریا مختص کرنا بھی لازم قرار دیا گیا ہے۔سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے سی پی اے کانفرنس میں لاہور چارٹر جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم، دولتِ مشترکہ پارلیمانی ایسوسی ایشن (CPA) کے ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے برانچز سے تعلق رکھنے والے معزز اسپیکرز، صدورِ اجلاس اور مندوبین، لاہور میں منعقدہ "پہلی مشترکہ سی پی اے ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کی علاقائی کانفرنس" میں یکجا ہو کر،لاہور چارٹر کو اس عزم کے ساتھ منظور کرتے ہیں کہ ہم پارلیمانی جمہوریت کو مستحکم کریں گے، جامع ترقی کو فروغ دیں گے اور خطے میں پائیدار ترقی کے لیے کام کریں گے۔ پارلیمان جامع طرز حکمرانی، احتساب کے قیام، اور تمام شہریوں کے حقوق اور امنگوں کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔موسمیاتی تبدیلی، سماجی و اقتصادی عدم مساوات، اور تیز رفتار تکنیکی تبدیلی جیسے علاقائی چیلنجز مشترکہ قانون سازی، جدید پالیسی سازی، اور بین الپارلیمانی تعاون کا تقاضا کرتے ہیں۔پارلیمانی سفارت کاری، علاقائی تعاون، باہمی افہام و تفہیم، اور پائیدار امن کے لیے ایک بنیادی ستون کی حیثیت رکھتی ہے۔مقامی حکمرانی کے ڈھانچے کو بااختیار بنانا ضروری ہے تاکہ مساوی ترقی اور عوامی خدمات کی مئوثر ترسیل یقینی بنائی جا سکے۔غلط معلومات، نفرت انگیز تقریر، اور ڈیجیٹل بدعنوانی عوامی اعتماد اور جمہوری اقدار پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔پارلیمان پر یہ اجتماعی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سماجی و اقتصادی عدم مساوات کو ختم کریں، صحت و تعلیم تک یکساں رسائی کو یقینی بنائیں، اور پائیدار ترقیاتی اہداف کو فروغ دیں۔خواتین، نوجوانوں، معذور افراد، اور اقلیتوں کی قانون سازی کے عمل میں مساوی نمائندگی جمہوری انصاف اور ترقی کے لیے ضروری ہے۔پنجاب اسمبلی کی جانب سے اس تاریخی کانفرنس کی میزبانی کے اقدام کو سراہتے ہیں جس نے ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے سی پی اے برانچز کے درمیان مکالمے، تعاون، اور قانون سازی میں جدت کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم فراہم کیا۔ہم پرعزم ہیں کہ جمہوری اصولوں، آئینی اقدار، اور پارلیمان کی بالادستی کو برقرار رکھیں گے۔