یک طرفہ فیصلہ نہیں دینگے، عدالت پارلیمنٹ کی کارروائی میں تب مداخلت کرسکتی ہے جب آئین کی خلاف ورزی ہو، چیف جسٹس

07 اپریل ، 2022

 اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ اور اسمبلی توڑنے کے معاملے پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ جب آئین کی خلاف ورزی ہو تب عدالت پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت کرسکتی ہے ،عدالت خارجہ پالیسی کے معاملات میں نہیں پڑنا چاہتی،عدالت وفاداریوں کی بنیاد پر نہیں، آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ دے گی۔بدھ کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔کیس کی سماعت شروع ہوئی تو مسلم لیگ (ن )کے وکیل اعظم نزیر تارڑ نے کہا کہ مجھے ایک منٹ کیلئے سنا جائے، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہونے کی یقین دہانی کرائی تھی، پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کی ہدایات پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ انتہائی اہم نوعیت کا کیس زیر سماعت ہے، 3 اپریل کو قومی اسمبلی میں جو ہوا اس پر سماعت پہلے ختم کرنا چاہتے ہیں، عدالت کے بارے میں منفی کمنٹس کیے جا رہے ہیں، کہا جا رہا ہے کہ عدالت معاملے میں تاخیر کر رہی ہے، پنجاب اسمبلی کا معاملہ آخر میں دیکھ لیں گے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیس کو ختم کرنا چاہتے ہیں، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی، ہمیں سب کو سن کر فیصلہ کرنا ہے، یکطرفہ کارروائی نہیں کر سکتے۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کا معاملہ بھی اسلام آباد کے معاملے کی ایکسٹینشن ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے پوچھیں گے کس قانون کے تحت اجلاس ملتوی کیا گیا۔پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں عدالت کے سامنے فریق ہیں، ایم کیو ایم، تحریک لبیک پاکستان فریق نہیں ہیں، بلوچستان عوامی پارٹی، پی ٹی ایم اور جماعت اسلامی بھی فریق نہیں ہیں، راہ حق پارٹی کی بھی پارلیمنٹ میں نمائندگی ہے تاہم وہ عدالت کے سامنے فریق نہیں، ازخود نوٹس کی ہمیشہ حمایت کی، شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے ازخود نوٹس لیا اور قوم کے ساتھ مہربانی کی۔بابر اعوان نے کہا کہ کیس یہ ہے اسپیکر کا اقدام غیر قانونی ہے، آرٹیکل 5 کے حوالے سے کسی کو غدار کہا گیا، عدالت سے کہا گیا ہے کہ آئین کے 2 آرٹیکل کی تشریح کی جائے، سیاسی جماعتوں کا مؤقف ہے ان کو آرٹیکل 5 کے تحت غدار قرار دیا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ غدار ان کو نہیں، آرٹیکل 5 کے تحت کیے گئے ایکشن کو کہا گیا ہے، آئین ایسا دستاویز ہے جس کی شقوں کو ملا کر پڑھا جاتا ہے، آرٹیکل 95 کی اپنی تشریح ہے۔بابر اعوان نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے پر کسی نے لفظ بھی نہیں کہا، ان کا دعویٰ ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، صدر (ن )لیگ نے پریس کانفرنس کے ذریعے کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا، مرکز، کے پی، پنجاب، آزاد کشمیر کی اکثریتی جماعت کو بغیر ریلیف چھوڑ دیا گیا۔  نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی رولنگ پڑھے بغیر اپوزیشن لیڈر نے پریس کانفرنس کی، یہ چاہتے ہیں عدالت فوری طور پر ان کے حق میں مختصر حکم جاری کر دے، چیئرمن پی ٹی آئی کی ہدایات پر عدالت کے سامنے چند نکات رکھنا چاہتا ہوں۔تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ درخواست گزار جماعتیں چاہتی ہیں کہ نیشنل سیکورٹی کمیٹی کا رولنگ میں حوالہ نظر انداز کیا جائے، برطانیہ کی ایک ججمنٹ پیش کی گئی، بتاؤں گا اس کا یہاں کوئی تعلق بنتا ہے یا نہیں، میرا یقین ہے اس مقدمے میں کوئی نکتہ نظرانداز نہیں ہوگا۔  آئین پاکستان اسلامی نظرئیے کی بنیاد پربنا، پاکستان دوسرے ملکوں سے مختلف ہے، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکربیرونی سازش پرخاموش تماشائی بن کر نہیں رہ سکتے، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کے پابند ہیں، کیا آئین پاکستان کا موازنہ بھارت، آسٹریلیا، انگلینڈ کے آئین سے کیا جا سکتا ہے؟ وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے، ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات، جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آئین ایک زندہ دستاویز ہے۔بابر اعوان نے کہا کہ جس برطانوی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا وہ اس کیس میں لاگو نہیں ہوتا، کیا سندھ ہاؤس اور لاہور کے ہوٹل میں جو ہوا اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ ارکان اسمبلی کے کردار پر قرآن و سنت اور مفتی تقی عثمانی کا نوٹ بھی دوں گا۔ تمام شہریوں پر لازم ہے وہ ریاست کے ساتھ مخلص ہوں، جو باہر سے پاکستان آتے ہیں انہیں بھی وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو پاکستانیوں کو ہیں، دیگر ممالک کے آئین میں ایسے حقوق نہیں دیے گئے، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں بھی قرار دیا ہے کہ پاکستان سے وفاداری ہر شہری پر لازم ہے، آئین شکنی پر کسی بھی شہری کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں دیکھنا ہے کیا اسپیکر کو اختیار ہے وہ ہاؤس میں ایجنڈے سے ہٹ کر کسی فیکٹ پر جا سکے، آئینی طریقہ ہے جسے بالکل سائیڈ لائن کر دیا جائے، کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ آپکو یہ بھی بتانا ہے، عدالتیں قانون کے مطابق چلتی ہیں، اس کیس میں ایک الزام لگایا گیا ہے، ڈپٹی اسپیکر نے ایک اقدام کیا ہے، بنیادی چیز یعنی حقائق پر آئیں۔جسٹس عمرعطا بندیال نے پی ٹی آئی وکیل بابراعوان سے سوالات پوچھے کہ کیا اسپیکر نے جو کیا اس کا کوئی پس منظر تھا؟ کیا رولنگ کسی فائنڈنگ پر تھی؟ اسپیکر نے کس بنیاد پر رولنگ دی؟ اس کے پاس کیا مواد تھا؟ ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اب تک کے دلائل سے لگ رہا ہے کہ اسپیکر نے جو کیا اس کا بیک گراؤنڈ ہے، آئینی شقیں تحریک عدم اعتماد پربہت واضح ہیں، کیا اسپیکر کو اختیار ہے کہ ایجنڈے کے علاوہ کوئی اور بات کر سکے؟ کیا اسپیکر ایجنڈے سے ہٹ کر رولنگ دے سکتا ہے؟۔انہوں نے کہا کہ آپ اسپیکر کے ایکشن کا دفاع کر سکتے ہیں مگر آپ کی دلیل کی بنیاد بھی ہونی چاہیے، پارلیمنٹ کا اجلاس کب ہوا؟ پارلیمنٹ اجلاس کے منٹس کوئی دکھائیگا تو بات بنے گی، سیدھی بات یہ ہے کہ عدالت حقائق اور ثبوت پر چلتی ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ موجودہ کیس میں الزامات لگائے گئے ہیں، آئینی بنیاد پر جانا چاہتے ہیں، اسپیکر نے کس بنیاد پر ایکشن لیا؟کیا اسپیکریہ ایکشن لے سکتا تھا؟ چیف جسٹس نے بابر اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اتنی کہانی بتانے کی ضرورت نہیں ہے، جس پر بابر اعوان نے کہا کہ راستہ بتانا چاہتا ہوں کہ کیسے سب ہوا، چیف جسٹس نے جواب دیا کہ راستے ہم خود نکال سکتے ہیں، ہمیں کہانیاں نا سنائیں، اسپیکر کی رولنگ میں صرف الزامات ہیں۔عدم اعتماد آئینی عمل ہے، کیا اسپیکر آئینی عمل سبوتاژ کرنیکا اختیار رکھتا ہے؟وکیل پی ٹی آئی بابر اعوان نے کہا کہ 7 مارچ کو خفیہ پیغام پاکستان آیا، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ڈی سائفر کا مطلب ہے ایک کوڈڈ چیز آئی اور اس کو ڈی کوڈکیا گیا؟ جس پر بابر اعوان نے کہا کہ سیکرٹ ایکٹ کے تحت یہ باتیں کرنا نہیں چاہتا۔بابر اعوان نے کہاکہ خفیہ پیغام پر بریفنگ دی گئی، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ خفیہ پیغام پرکابینہ کو بریفننگ دی یا دفترخارجہ میں اجلاس کو؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ کابینہ اجلاس میں خفیہ پیغام پر بریفنگ دی گئی۔پی ٹی آئی وکیل بابراعوان نے لیٹر گیٹ پر ان کیمرہ سماعت کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ ان کیمرہ ڈسکس ہو سکتا ہے؟ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سے صرف واقعات کا تسلسل جاننا چاہ رہے ہیں۔اٹارنی جنرل نے دلائل میں خلل ڈالنے پر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ خارجہ پالیسی پرکسی سیاسی جماعت کے وکیل کو دلائل نہیں دینے چاہئیں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت خارجہ پالیسی کے معاملات میں نہیں پڑنا چاہتی۔ نجی ٹی وی کے مطابق بابراعوان نے کہا کہ میٹنگ میں کہا گیا ایک ملک نے پاکستان کے معاملے میں مداخلت کی، احتجاجی مراسلہ جاری کیا جائے، احتجاجی مراسلہ دو جگہ جاری ہوا، پاکستان میں اور خفیہ کوڈ والے ملک میں بھی، سینئر اینکر کیساتھ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا فوج کا وہی مؤقف ہے جو کمیٹی نے کہا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس میں دو رائے نہیں کہ آئین کے تحت ہر شہری کی وطن سے وفاداری لازم ہے، کوئی بیرونی طاقتوں سے ملا ہوا ہے تو اس کے خلاف کیا ایکشن ہوا؟ تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے والوں پر الزام ہے وہ بیرونی سازش کرنے والوں سے ملے ہوئے ہیں، اگر ایسا ہے تو تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والوں کے خلاف کیا کیا؟بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے کسی کو غدارکہا نا ایکشن لیا، محتاط ہوکر اس معاملے پر دلائل دے رہا ہوں، پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کے خلاف آرٹیکل 63 ایکے تحت الیکشن کمیشن کو معاملہ بھجوایا ہے، رات کو میں نے اپنے مؤکل سے ہدایات لیں۔انہوںنے کہاکہ پاکستان کی خود مختاری پرکس کس نے حملہ کیا؟ تحقیقات کیلئے کمیشن بنایا جائے، میمو گیٹ کمیشن کی کارروائی ابھی تک زیر التوا ہے، جو حقائق متنازع ہیں ان کی تحقیقات ہونی چاہئیں، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کمیشن بنانے کی بات کر رہے ہیں، کیا آپ کے مؤکل کو نہیں پتاکون کون شامل ہے اور اتنا بڑا اقدام کر دیا۔جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ صرف مفروضوں پربات کررہے ہیں جبکہ چیف جسٹس نے بابر اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو ہمیں پارلیمانی جمہوریت کا بتانا تھا، ہمیں اس معاملے کو ختم کرنا ہے، ہم جلد سماعت مکمل کرنا چاہتے ہیں، ادھر ادھر کی باتیں نا کریں۔  چیف جسٹس نے کہا کہ وقت گزر رہاہے،(آج) جمعرات کو اس کیس کو صبح ساڑھے9 بجے سنیں گے۔ن لیگ کے وکیل اعظم نذیرتارڑ نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کے دروازے نہیں کھولے جا رہے،دل دکھ رہاہے صوبہ پنجاب 6 دن سے بغیر وزیراعلیٰ کے چل رہا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے اس کیس میں کوئی حکم نہیں دیا، آرٹیکل 63 اے کا معاملہ بھی ابھی نہیں دیکھ رہے، پنجاب اسمبلی کی صورتحال میں ہم مداخلت نہیں کرسکتے،  پنجاب اسمبلی کامعاملہ چھوٹا نہیں کہ مختصرحکم نامے پاس کرنا شروع کردیں۔  پہلے قومی اسمبلی کے معاملے پر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں، قومی اسمبلی ممبران نے ہر طرح کے حالات کے باوجود انتہائی مؤدبانہ رویہ رکھا، کل فیصلہ کریں گے کہ پنجاب اسمبلی کامعاملہ سنیں یالاہورہائی کورٹ بھیجیں۔کیس کی سماعت (آج) جمعرات کی صبح ساڑھے9 بجے تک ملتوی کردی گئی۔