غریب قوموں کا اصل دشمن کون؟

محمود شام
05 دسمبر ، 2021
مملکت اے مملکت…محمود شام
آج اتوار ہے۔اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں سے ملنے۔ ڈھیر ساری باتیں کرنے کا دن۔سب سے زیادہ ضروری تو یہ ہے کہ انہیں اپنے عظیم وطن پاکستان کے بارے میں بنیادی معلومات سے آگاہ کریں۔ اپنی تاریخ سے، جغرافیہ سے، اپنی فصلوں سے معدنیات سے۔کیا آپ نے اپنی اولادوں سے ذکر کیا کہ ہم اگست 2021میں اپنی آزادی کے 75ویں سال سے گزر رہے ہیں۔ کیا ہمیں اللہ کا شکر نہیں بجا لانا چاہئے کہ بھارت کی پہلے دن سے ہم سے دشمنی، قیام پاکستان کے مخالفین کی مسلسل سازشوں کے باوجود، ہمارے سیاسی اور فوجی حکمرانوں کی غلط منصوبہ بندیوں اور اکثریت کی زندگی آسان بنانے سے عدم توجہی کے ہوتے ہوئے ہم نے آزادی کے 75 سال پورے کیے ہیں۔ ہم جن مشکلات، محاذ آرائیوں، محرومیوں اور جبر کا شکار ہیں۔ دنیا کی ترقی یافتہ قومیں بھی ان سے دوچار رہی ہیں۔ امریکہ کی ابتدائی صدیاں دیکھ لیجئے۔ برطانیہ کی خانہ جنگی، فرانس میں انقلاب سے پہلے کے تاریک ادوار،کیسی کیسی دُشواریوں سے ان کا سامنا رہا۔
ہمارے ساتھ تو یہ حادثہ بھی ہوا ہے کہ بیسویں صدی میں ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ملکوں کو جسمانی طور پر تو آزاد کیا گیالیکن ذہنی اور معاشی طور پر غلامی کی نئی زنجیریں پہنادی گئیں۔ اقوام متحدہ امیر ملکوں کی باندی بن کر رہ گیا ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور مغرب کے دوسرے ممالک۔ اقوام متحدہ کی مختلف تنظیمیں، انسانی حقوق کے تحفظ کے چیمپئن ادارے، مغربی میڈیا، غریب ملکوں کو اپنے لوگوں، اپنی فوج، اپنی سرکار، اپنی پولیس سے متصادم کروانے میں مصروف رہتا ہےجبکہ ان مفلس قوموں کی فوج، پولیس اور بیورو کریسی کو تربیت بھی یہی امیر ملک دے رہے ہیں۔ یہی امیر ممالک ان قوموں کو انسانی حقوق کے حصول کے لیے اپنی فوج، پولیس اور بیورو کریسی کے خلاف اکساتے ہیں۔ ہماری حکومتوں کو آنسو گیس اور جبر کے دوسرے آلات دیتے ہیں۔ امداد اور قرضوں کے ذریعے حکمرانوں کو طاقت ور بھی بناتے ہیں اور عام نوجوانوں کو اپنی سرکاروں کے خلاف بغاوت پر بھی آمادہ کرتے ہیں۔ ہمارے لٹیرے حکمرانوں، سینکڑوں افراد کو ہلاک کروانے والے لیڈروں کو بھی یہ اپنے ہاں پناہ دیتے ہیں۔ مقدمات میں مطلوب، سزا یافتہ مجرموں کو بھی اپنی آغوش میں رکھتے ہیں۔ پھر ہم سے کبھی موسمیاتی تبدیلیوں کے نام پر مختلف مطالبے کرتے ہیں۔ قرضے دیتے ہوئے غریب اکثریت پر مہنگائی بے روزگاری کو جنم دینے والی شرائط عائد کرتے ہیں۔ ان کے گماشتے ماہرین معیشت۔ اسکالرز۔ انسانی حقوق کے علمبردار آئی ایم ایف۔ عالمی بینک اور دوسرے اداروں کو غریب قوموں کا مسیحا بناکر پیش کرتے ہیں۔ ہمارے ذہن گروی رکھے جاچکے ہیں۔ ہمیں یہ سوچنے بھی نہیں دیتے کہ ہماری غربت، محرومیاں، جبر یہ اس وقت کا تسلسل اور ورثہ ہے جب برطانیہ، فرانس، بلجیم، پرتگال، ہالینڈ، ایشیا، لاطینی امریکہ اور افریقہ کے ملکوں پر مسلط تھے۔
بھارت کے مودی کو پہلے امریکی ویزے کا اہل بھی نہیں سمجھا جاتا۔ پھر اسے وزیر اعظم بناکر مسلمانوں اور چھوٹی ہندو ذاتوں۔ سکھوں۔ کے لیے عذاب بنادیا گیا ہے۔ بھارت کے ذریعے بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا اور پاکستان کو مسائل میں الجھایا جاتا ہے۔ افغانستان کی تو حال ہی کی مثال ہے۔ وہاں امریکہ 20سال تک مسلط رہا۔ اس کے بہترین فوجی۔ اقتصادی تعلیمی ماہرین کیا کیا تجربے کرتے رہے۔ اب اسے کس حال میں چھوڑ کر گیا ہے۔ وہاں انسانیت مسلسل کرب میں تڑپ رہی ہے۔ لیکن طالبان کے ہوّے سے ڈراکر کسی ملک کو اس کی مدد نہیں کرنے دی جارہی ہے۔ خواتین کی آزادی کا ڈھونگ رچایا جارہا ہے۔ امریکہ افغانستان سے کیا کچھ لوٹ کر لے گیا ہے۔ اس پر کوئی واویلا نہیں۔
کمیونسٹ روس موجود تھا تو غریب ملکوں کی کچھ نہ کچھ شنوائی ہوجاتی تھی۔ مذہب اور عقیدے کے نام پر کمیونزم کا خاتمہ کردیا گیا۔ اب سب سے زیادہ مشکلات کا شکار مسلمان ممالک ہیں۔ ایران سعودی عرب تصادم کے ذریعے مسلم دنیا کو تقسیم کردیا گیا ہے۔ لیبیا اور عراق میں ان سامراجیوں نے کیا حال کیا ہے۔ ذمہ داری ان پر عائد کرنے کی بجائے مسلمانوں کی نظروں میں قذافی اور صدام کو گرایا گیا۔یمن میں جیتے جاگتے انسان۔ بچے۔ عورتیں بھوک کا شکار ہیں۔ان کے اپنے مورخ۔ محقق یہ رپورٹیںلے کر آرہے ہیں۔ یورپی ممالک افریقہ سے 29 ارب ڈالر چراکر لے جارہے ہیں۔ افریقہ غریب نہیں ہے۔ ہم اس کی دولت لوٹ رہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم افریقہ کے بارے میں بات کرنے کے انداز کوبدلیں ان کے وسائل ان کو استعمال کرنے دیں۔امیر ملکوں کی کمپنیاں غریب ملکوں میں آکر مہنگی کاریں۔ پر تعیش گاڑیاں تیار کررہی ہیں۔ بسیں نہیں بناتی ہیں۔ گزشتہ 500 سال سے مٹھی بھر قوموں نے غلامی کا جال بچھاکر سینکڑوں قوموں کو اپنی ترقی کا ذریعہ بنارکھا ہے۔ اپنے مزدوروں کو مراعات دے کر پالتے ہیں۔ غریب ملکوں میں اپنی مصنوعات تیار کرواتے ہیں۔ وہاں محنت کشوں کو زیادہ مراعات نہیں دینے دیتے۔ کہتے ہیں وہاں لیبر سستی ہے۔ کثیر الاقوامی کمپنیاں پاکستان اور دوسرے ایسے پسماندہ ملکوں میں اپنی مصنوعات تیار کرواکے ٹیکس بچاکر زر مبادلہ اپنے ملکوں میں لے جاتی ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے نام پر یہ امیر ملک آج کل غریب ملکوں پر برس رہے ہیں۔ الزامات عائد کررہے ہیں۔ انسانیت کے مستقبل کے حوالے سے خدشات کا حوالہ دے رہے ہیں۔ وژن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسانیت کا مستقبل خطرے میں ہے۔ بالخصوص پاکستان کا تو حال خطرے میں ہے۔ ان ملکوں کی دولت ان کی نہیں بلکہ غریب ملکوں کی لوٹی ہوئی ہے۔ ان کی تاریخ چند سو سال کی ہے۔ ہم آٹھ دس ہزار سال پرانی میراث رکھتے ہیں۔غریب ممالک اپنے اصل دشمنوں کو کب پہچانیں گے۔ متحد ہوکر اپنے وسائل اور اپنی دولت کو اپنی ترقی کے لیے کب استعمال کریں گے۔ ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ غریب نہیں ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ بٹھایا جارہا ہے کہ ان کے درد کی دوا واشنگٹن، لندن، جنیوا میں ہے۔ یہ اکیسویں صدی کی غلامی کا نیا انداز ہے۔ اپنے مسائل اپنے وسائل سے حل ہوسکتے ہیں۔