دس فیصد سچ

یاسر پیر زادہ
05 دسمبر ، 2021
ذراہٹ کے…یاسر پیر زادہ
ہم دودھ کو کیتلی میں ڈال کر چولہے پر رکھتے ہیں، نیچے آگ جلا دیتے ہیں، تھوڑی دیر میں جب دودھ ابل کر کیتلی سے باہر آ جاتا ہے تو ہم دودھ کے خلاف ایک مذمتی بیان جاری کرتے ہیں کہ دودھ نے ہمارا سر شرم سے جھکا دیا اور یہ بھول جاتے ہیں کہ کیتلی کے نیچے آگ ہم نے خود جلائی تھی۔
3 دسمبر کو صبح 10 بج کر 35منٹ پر سیالکوٹ میں ’مشتعل ہجوم ‘نے سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کو ڈنڈوں اور لاتوں سے مار کر قتل کیا، اِس کی لاش کو برہنہ کرکے سڑک پر گھسیٹا، اُس کے مردہ جسم پر ٹھڈے اور ڈنڈے برسائے اور جب تسلی نہ ہوئی تو لاش کو جلا کر کوئلہ بنا ڈالا۔اِس دوران ہجوم نے کیا نعرے لگائے،یہ قتل کیوں ہوا، پریانتھا کمارا کا اصل مجرم کون ہے؟یہ سب لکھنے سے میرا قلم قاصر ہے کیونکہ مجھے صرف دس فیصد سچ لکھنے کی آزادی ہے اور وہ بھی اشاروں کنایوں میں اور یہ دس فیصد سچ لکھنے سے پہلے بھی مجھے ہزار بار سوچنا پڑتا ہے۔ آج کا دس فیصد سچ یہ ہے کہ پریانتھا کمارا کا قتل اِس نوعیت کا پہلا قتل ہے اور نہ آخری ۔مشال خان کی اندوہناک موت، بہاولپور میں شاگرد کے ہاتھوں استاد کا قتل، کوٹ رادھا کشن میں مسیحی جوڑے کو بھٹی میں زندہ جلادینے کا واقعہ،خوشاب میں سیکورٹی گارڈ کا بینک منیجر کو گولی مارنا..... اِس قسم کے واقعات کی ایک طویل فہرست ہے جو ہمارے نامۂ اعمال میں لکھی جا رہی ہے اور روز قیامت یہی نامہ اعمال ہمارے منہ پر مارا جائے گا۔ بظاہر چند دن میں لوگ یہ واقعہ بھول جائیں گے مگر پھر کوئی اور واقعہ رونما ہوگا جو پہلے سے بھی زیادہ دلخراش ہوگا جس کے بعد ہم نئے سرے سے نوحہ گری میں مصروف ہو جائیں گے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ اِن تمام واقعات میں ایک بات بہت عجیب ہے اور وہ یہ ہے کہ اِس قسم کے واقعات کے مجرمان فوراً گرفتار بھی کر لیے جاتے ہیں، اُن پر مقدمہ بھی چلتا ہے، عدالتیں نہایت جرات سے کام لے کر سزائیں بھی سنا دیتی ہیں، اِن سزاؤں پر عمل بھی ہو جاتا ہے مگر اِس کے باوجود یہ واقعات نہیں رکتے !سیالکوٹ واقعے کی مثال ہی لے لیں، اِس واقعے کے رونما ہونے کے بعد محض چند گھنٹوں کے اندر اندر پولیس نے 50 سے زائد ذمہ دار افراد کو گرفتار کرکے حوالات میں ڈال دیا ، یقیناً اِن پر مقدمہ بھی چلے گا اور انہیں قانون کے مطابق سزا بھی ہوگی مگر اِس کے باوجود پاکستان کے22 کروڑ عوام میں سے کسی کو اِس بات میں رتی برابر بھی شبہ نہیں کہ سیالکوٹ جیسے واقعات آئندہ بھی پیش آئیں گے اور اُس وقت تک پیش آتے رہیں گے جب تک ہم اصل وجوہات کا تدارک نہیں کریں گے۔وہ اصل وجوہات ہم سب جانتے ہیں مگر لکھ نہیں سکتے۔ دس فیصد سچ یہ ہے کہ اصل وجہ وہ آگ ہے جو ہم نے معاشرے کی کیتلی کےنیچے بھڑکائی ہوئی ہے، جب اس کیتلی میں سے جنونیت کا دودھ ابل کر باہر آنے لگتا ہے تو ہم آگ بجھانے کی بجائےدودھ کوپھونکوں سے واپس کیتلی میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، اورظاہر ہے کہ یہ کار لا حاصل ہے۔
گزشتہ اڑتالیس گھنٹوں میں سیالکوٹ واقعے پر ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے شخص نے مذمتی بیان جاری کیا، حتّیٰ کہ اُن لوگوں نے بھی مذمت کی جو سارا سال معاشرے میں انتہا پسندی کی کیتلی کے نیچے آگ بھڑکا کر رکھتے ہیں ۔ اُن کا خیال ہےکہ مذمتی بیانات دینے اور یہ کہنے سے کہ آئین، قانون اور مذہب اِس ظلم کی اجازت نہیں دیتا، وہ بری الذمہ ہو جاتے ہیں جبکہ دس فیصد سچ یہ ہے کہ یہ واقعہ پیش ہی اِس وجہ سے آیاہے کہ ملک کی فضا اس جنونیت کے لیے سازگار بنا دی گئی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سالہا سال تک ایک مخصوص بیانیے کی آبیاری کریں، اس بیانئے کی مخالفت کرنے والوں پر مذہب دشمن ہونے کی پھبتی کسیں، ریاست کو بلیک میل کرنے والے گروہوں کی ڈنکے کی چوٹ پر حمایت کریں، ایسے گروہوں کے ہر جائز نا جائز اقدام کا دفاع کریں۔ اور جب اِس انتہا پسند بیانئے کے زیر اثر لوگ غیر ملکی شہری کوقتل کرکے اُس کی ننگی لاش سڑکوں پر گھسیٹیں تو آپ اِس سے اعلان برات کردیں !ہم سب نے ٹویٹر پر وہ مذمتی بیانات پڑھے ہیں جو اِس واقعے کے بعد جاری کیے گئے ہیں، اِن میں سے کئی مذمتی بیانات میں تو اتنےغم و غصے کا اظہار بھی نہیں کیا گیا جتنااُس موقع پر کیا گیا تھا جب دو بچوں نے اسلام آباد میں قائد اعظم کے پورٹریٹ کے سامنے کھڑے ہو کر تصاویر بنوائی تھیںاور بات غم و غصے کی بھی نہیں،اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ نظریاتی طور پر کہاں کھڑے ہیں ! یہ جاننے کے لیے گزشتہ ایک ماہ کے اخبارات اٹھا لیں اور پڑھنا شروع کردیں کہ کیسےہمارے مہربانوں نےمذہبی بنیاد پر ہونے والے پر تشدد احتجاج کی حمایت میں تاویلیں گھڑیں اور کہاں کہاں سے دلیلیں ڈھونڈ کر لائے۔مجھے مایوسی پھیلانے کا کوئی شوق نہیں مگر یہ کہے بغیر چارہ بھی نہیں کہ اب اِس بیانئے کو ریورس کرنا آسان کام نہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں جس قسم کا نصاب رائج کر دیا گیا ہے اس کے بعد معاشرے کے نارمل ہونے کی رہی سہی امید بھی ختم ہو گئی ہے۔ ایسا نہیں ہےکہ صرف ہمارا معاشرہ ہی جنونی ہے، باقی دنیا میں بھی اِس قسم کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں، آج سے چھ سال پہلے گوئٹے مالا کے ایک گاؤں میں سولہ سال کی لڑکی کو زندہ جلادیا گیاتھا، اُس پر کسی ٹیکسی ڈرائیور کے قتل کا الزام تھا، اُس لڑکی پر تیل چھڑک کر آگ لگائی گئی اور وہ تڑپ تڑپ کر مر گئی اور ارد گرد کھڑے لوگ موبائل فون سے وڈیو بناتے رہے۔ مگر ہم میں اور باقی دنیا میں فرق یہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ واقعات اب بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور معاشرے کا بڑا طبقہ ایسے واقعات کی بالواسطہ حمایت بھی کرتاہے جو بے حد خوفناک بات ہے۔
ایک آدھ دن میں پریانتھا کمارا کی لاش کو تابوت میں ڈال کر سری لنکا روانہ کر دیا جائے گا جہاں اُس کی بیوی اور بچہ کوئلہ بنی یہ لاش وصول کریں گے۔ اُس کے بعد ہم بے شک اگلے سو سال تک یہ نعرے لگاتے رہیں کہ ہمارا دین امن و آشتی کا درس دیتا ہے، پاکستان اقلیتوں کے لیے سب سے محفوظ ملک ہے، ہم بے حد مہمان نواز قوم ہیں۔ کسی کوہماری بات پر یقین نہیں آئے گا۔پریانتھا کمارا کی لاش ہمیں ہانٹ کرتی رہے گی!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)