حکومت اور الیکشن کمیشن آمنے سامنے

خلیل احمد نینی تال والا
05 دسمبر ، 2021
خلیل احمد نینی تال والا
پاکستان الیکٹرونک ووٹنگ مشین استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا۔ پاکستان کے علاوہ امریکا سمیت 8 ممالک میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین کا استعمال جاری ہے۔بھارت میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین کا استعمال 1982سے ہورہا ہے، برازیل، ایسٹونیا، فلپائن اور وینزویلا میں بھی ای وی ایم کا استعمال جاری ہے۔ برس ہا برس سے اپوزیشن اور حکومتوں کے مابین غیر منطقی فراست نے معیشت اور سیاست کے لچکدار زاویوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ گزشتہ تینوں ادوار اور اب موجودہ حکومت بھی حکومتی کاموں کی انجام دہی اور عوامی حلقوں کی اپنائیت سے کوسوں دور نظر آتی ہے۔ معاہدے کے بھی کچھ اصول ہو تے ہیں کہ آپ فلاں لائن سے آگے نہیں جائیں گے اور کوئی بھی ایسی پالیسی ترتیب نہیں دی جائے گی جو پاکستان کے مفاد کے خلاف ہو۔ گزشتہ دنوں شدید ہنگامہ آرائی کے باوجود سارجنٹ ایٹ آرمز کے حصار میں حکومت نے اپنی بات منوالی۔ حکومت نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو اپیل کا حق، الیکٹرانک ووٹنگ مشین، اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق، مسلم فیملی لا، اینٹی ریپ بل، الکرم انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ بل 2021 سمیت 33 بل منظور کیے۔ بظاہر اینٹی ریپ بل اور کلبھوشن یادیو بلوں کی منظوری میں جماعت اسلامی کے علاوہ پوری اپوزیشن کا ساتھ شامل تھا۔
اپوزیشن کی کلی مخالفت 2 بلوں ای وی ایم یعنی الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اوورسیز پاکستانیوں کو حق رائے دہی کے استعمال کی اجازت دینے کے حوالے سے تھی۔ مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور مولانا اپنی کرسی اور جیل کی سلاخوں سے بچنے کے لیے اتحاد کا دروازہ کھولتے ہیں اور مشترکہ قومی مفاد کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا تجربہ کرنے سے پہلے حکومت کو 100 بار سوچنا چاہیے تھاکہ مختلف ممالک نے اسے ری جیکٹ کر دیا ہے کیوں کہ اس میں غلطیوں کی گنجائش زیادہ ہے اور الیکشن کمیشن بھی ای وی ایم کے ذریعے الیکشن کرانے سے انکارکر چکا ہے۔ اگر حکومت اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر یہ کام کرتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔ مگر دیکھا جائے تو حکومت نے اپوزیشن کی 3بڑی پارٹیوں کواعتماد میں لینے کی کوشش کی جسے اپوزیشن نے یہ کہہ کر مستردکر دیا کہ یہ اگلے انتخابات جیتنے کی سازش ہے۔یا درکھیئے!ای وی ایم ایک تکنیکی آلہ ہے جو ٹیکنالوجی ہے اور ٹیکنالوجی کی افادیت سے کسی کو انکار نہیں ہے۔
اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دینے کے حوالے سے ماضی قریب کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلم لیگ نواز نے اپنے پچھلے دور اقتدار میں پارلیمنٹ کو قائل کرنے کی پوری کوشش کی تھی کہ سمندر پار بیٹھے پاکستانیوں کو پورا حق ہے کہ وہ اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں۔ سوال سادہ سا ہے کہ دیارِ غیر میں بسنے والے افراد کوحق رائے دہی کا اختیار کیوں نہیں ہونا چاہیے۔کیا اوورسیز پاکستانی وطن کو زرمبادلہ نہیں بھجواتے،کیا اوورسیز رہنے والے تمام افراد ایلیٹ ہیں، 90 لاکھ اوورسیز پاکستانیوں میں زیادہ سے زیادہ 5 لاکھ لوگ ایلیٹ ہو سکتے ہیں مگر 85 لاکھ تو ہمارے جیسے ہیں جو پاکستان سے باہر رہتے ہوئے بھی ہماری طرح ہی مہنگائی سے متاثر ہوتے ہیں۔ مشاہدے میں ایسے بیسیوں لوگ آتے ہیں جو لاکھوں روپے کما کر بھی 20،20 سال سے پاکستان سے باہر ہیں اور مشکل سے گزر بسر کرتے ہیں۔ پاکستان سے محبت اور ان کے خاندانوں کی قربانی کی بدولت ان کا یہ حق کوئی نہیں چھین سکتا۔وزیر اعظم صاحب کو evmمشین سے الیکشن کرانے اور اپوزیشن سے محاذ آرائی کرنے کی بجائے معیشت کی ڈوبتی حالت کی ذمہ داری قبول کرنی ہو گی۔برآمدات میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی، کاروں کی بے تحاشا در آمدات سے نچلے طبقے کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ گردشی قرضے کم ہونے کے بجائے دوگنا ہو گئے ہیں۔ یہ صورتحال تشویش ناک ہے، اس پر توجہ دینا ہو گی۔
دوسری جانب گزشتہ 5 سالوں میں یہ ساتواں موقع ہے کہ تحریک لبیک پاکستان نے ریاست کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اورپاکستان تحریک لبیک اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ وزیرداخلہ کی طرف سے عوام کو یہ کہہ کر بیوقوف بنایا جاتا رہا کہ فرانسیسی سفیر کا معاملہ ہے اور سفیر کو نکال کر ہم یورپی یونین سے تعلقات خراب نہیں کر سکتے پھر یوٹرن لے کر کہا گیا کہ پاکستان میں سفیر ہے ہی نہیں،سفیر کے علاوہ تمام مطالبات مان لیے گئے۔پھر وہی دہشت گرد گروہ جنہیں انسدادِدہشت گردی قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا وہی عسکریت پسند گروہ،وہی بھارت کا سپورٹر اور ایجنٹ جس کو بھارت کی فنڈنگ حاصل تھی اب ان کے نام سے کالعدم کا لفظ ہٹا کر وسیع تر قومی مفاد میں خان صاحب کی زبان میں این آر او دے دیا گیا ہے۔فواد چوہدری جو کہتے تھے کہ ریاست کبھی ان جتھوں سے بلیک میل نہیں ہوگی ان سے سوال ہے کہ اب ریاست کی رٹ کہاں گئی؟ اب ریاست کیوں بلیک میل ہو رہی ہے؟ اب اسی بھارت کے سپورٹر سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی باتیں ہو رہی ہیں اور اپوزیشن جس کی خود کی کوئی حکمت عملی نہیں جو 2 سال سے چوہے بلی کا کھیل کھیل رہی ہےاور اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومت کی بھی کوئی واضح پالیسی نہیں ہے جس سے نہ معیشت سنبھل رہی ہے نہ ان سے ریاست کی رٹ قائم ہو رہی ہے نہ ان سے مہنگائی کنٹرول ہو رہی ہے بس بیان دے کر یو ٹرن لینا جانتے ہیں۔