وہ لاہور کہیں کھو گیا

واصف ناگی
05 دسمبر ، 2021
حرف آغاز…واصف ناگی
(گزشتہ سے پیوستہ) 
ہم پچھلے کئی برسوں سے اس لاہور کو تلاش کر رہے ہیں جو ہم نے پچاس/ ساٹھ برس پہلے دیکھا تھا ،وہ لاہور جس میں ہمارے بڑے صدیوں سے رہتے رہے اور سینہ بہ سینہ اس خوبصورت لاہور کی باتیں، روایات، ثقافت،عشق کی سچی داستانیں سنتے آئےہیں۔ وہ لاہور اب کہیں نہیں ملے گا۔ اس لاہور کو پلاٹ مافیا ، ہائوسنگ اسکیموں والے اور بیرونِ شہر سے آنے والے لوگ کھا گئے۔ اب تو ہمیں اس لاہور کی ایک بھی روایت کہیں نظر نہیں آتی۔ لاہور شہر کے مہربان اور اس شہر کو بنانے والے دو نہیں چار ایسے افراد تھے جن کے تذکرے کے بغیر لاہور کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔ ملک ایاز (محمود و ایاز والا) ،فادر آف لاہور سر گنگا رام (سرگنگا رام اسپتال اور بالک رام میڈیکل کالج، اب فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی)، لالہ لاجپت رائے (گلاب دیوی اسپتال والے)، لالہ لاجپت رائے نے تو تحریکِ آزادی میں اپنی جان بھی قربان کردی تھی۔ مال روڈ پر ایک جلوس میں پولیس کی لاٹھی لگنے سے زخمی ہوئے، اسپتال میں کئی روز داخل رہے پھر وفات پا گئے۔ چوتھے ڈاکٹر جمعیت سنگھ (پروفیسر آف پتھالوجی کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج) جنہوں نے اپنی بیوی جانکی دیوی کی یاد میں جانکی دیوی جمعیت سنگھ اسپتال بنایا تھا جو آج بھی خواتین کو علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کر رہا ہے۔یہ اسپتال 1930 میں بنایا گیا تھا جوآج بھی اپنی اصل صورت میں کسی حد تک موجودہے۔ اس کی ایم ایس ڈاکٹر فرح دن رات محدود وسائل کے باوجود بہترین خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ لاہوریوں کی 90فیصد اکثریت کو پتہ نہیں کہ یہ اسپتال کہا ںہے۔ چلیں یہ بھی ہم آپ کوبتاتے ہیں۔ یہ اسپتال لاہور کے ایک تھانے قلعہ گوجرسنگھ کے پچھلی طرف ہے، اس تھانے کی وجہ سے لوگوں کو اس اسپتال میں آنے جانے میں خاصی مشکلات کا سامنا ہے۔ قلعہ گوجر سنگھ تھانہ پہلے ایبٹ روڈ کی ایک کوٹھی میں تھا اور یہ جگہ بڑی کھلی اور وسیع تھی۔
ہم پچھلے کالم میں آپ کو بتا رہے تھے کہ لالہ لاجپت رائے کو اپنی ماں گلاب دیوی سے بہت پیار تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنی ماں کی یاد میں صرف خواتین کے لئے ٹی بی(تپ دق)کا اسپتال بنایا۔ یہ اسپتال بڑا تاریخی ہے اس میں آج بھی انگریزی اور ہندی میں یہ الفاظ درج ہیں۔ شری متی گلاب دیوی اسپتال برائے خواتین 17 جولائی 1934ء ، اس کا افتتاح گاندھی نے کیا تھا۔ پھر 6نومبر 1947ء کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے ہمراہ دورہ کیا اور اپنے ہاتھ سے ایک تحریر لکھ کر گلاب دیوی اسپتال کی انتظامیہ کو دی۔ وہ لکھتے ہیں ’’میں نے 6نومبر 1947ء کو گلاب دیوی اسپتال کا دورہ کیا جو اب مہاجرین کی دیکھ بھال کر رہا ہے، اس کے انچارج،ڈاکٹر، نرسیں اور دیگر لوگ بہترین کام کر رہے ہیں اور اس انسانی خدمت اور بے لوث لگن کے اعتراف میں ہمارے شکریے کے مستحق ہیں‘‘۔
اس اسپتال کی تعمیر 1931 میں شروع ہوئی اور 1934ء میں مکمل ہوگئی اب یہ بہت بڑا اسپتال ہے جہاں دل کا آپریشن اور ٹی بی کا علاج ہوتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ اس اسپتال نے بھارت سے 1947ء میں جو مہاجرین آئے ان کو علاج کی بہترین سہولتیں فراہم کیں۔ اسی اسپتال کے پاس وہ تاریخی والٹن ایئر پورٹ ہے جو کچھ دنوں بعد ختم ہو جائے گا۔ اس ایئر پورٹ کو گرانے اور ختم کرنے کی تمام تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ مشینری آ چکی ہے۔ زمین کو ہموار کیا جارہا ہے اور اگلے چند دنوںبعد لاہور اپنے پہلے اور تاریخی ایئرپورٹ سے محروم ہو جائے گا۔ اس کا تاریخی رن وے جہاں کبھی مہاجروں کے کیمپ اور عارضی اسپتال تھا ،افسوس ان مہاجروں نے پاکستان میں اپنے مستقبل کے جو روشن خواب دیکھے تھے وہ سب صرف چند ہفتوں میں اونچے اونچے پلازوں کی بنیادوں میں ہمیشہ کے لئے دفن ہو جائیں گے۔اب تو وہ نسل ہی ختم ہو گئی ہے جس نے پاکستان کے لئے پتہ نہیں کیا کیا خواب دیکھے تھے۔
وہ لاہور فلائنگ کلب کی تاریخی عمارت جس پر 1930ء لکھا ہوا ہے وہ بھی اب چند دنوں کی مہمان ہے۔ قائد اعظمؒ کی سرکاری رہائش گاہ تو پہلے ہی2011 میں زمین بوس کر دی گئی تھی اور تاریخی درخت جو ہم نے خود کئی مرتبہ دیکھے وہ تاریخی درخت جن کے سائے میں کبھی مہاجر سستاتے تھے، اب کاٹ دیئے جائیں گے۔ باہر کے لوگ تو تاریخی درختوں کو محفوظ کرلیتے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ لاہور ریلوے اسٹیشن، الحمرا سینما اور ریکس سینما کے نزدیک ایک بڑا سا بوہڑ کا درخت ہوتا تھا۔ یہ درخت قیام پاکستان سے بھی قبل کا تھا، اس جگہ کا نام بوہڑ والا چوک پڑ گیا۔ کئی برس قبل یہ درخت خراب ہونا شروع ہو گیا۔ کسی نے اس کی طرف توجہ نہ دی۔ اب بوہڑ والا چوک تو ضرور ہے مگر درخت نہیں۔ بڑا تاریخی درخت تھا جس پر ہر نئی فلم کا پوسٹر ضرورچسپاں کیا جاتا تھا۔
الحمرا سنیما اور ریکس سنیمابھی گرگئے۔ یہیں قریب نواب زادہ نصر اللہ خان کی رہائش گاہ تھی۔ وہ بھی ختم ہوگئی۔ الحمرا سینما لاہور کا پہلا سینما تھا جس کی دو گیلریاں تھیں۔ ریگل واحدسنیما تھا جس میں کوئی گیلری نہیں تھی ، اس میں ایک ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ لاہور میں رائے بہادر امر ناتھ چسٹ و ٹی بی اسپتال بھی ہے اور کسی لاہورئے کو شاید ہی پتہ ہو کہ رائے بہادر امرناتھ چسٹ وٹی بی اسپتال کہاں ہے اور اس کو کیوں بنایا گیا تھا۔ ویسے ایک ٹی بی اسپتال بلال گنج کباڑیا مارکیٹ میں بھی ہے۔اس کے بارے میں بھی بتائیں گے۔ (جاری ہے)