گورنر پنجاب ’’خزاں‘‘ کی لپیٹ میں!

وجاہت علی خان
05 دسمبر ، 2021
ہائیڈپارک…وجاہت علی خان
لندن کی یخ بستہ خزاں کے باوجود مرنجاں مرنج گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کا چہرہ اگر بہار کے سورج کی پہلی کرن کی طرح چمک رہا تھا تو یہ اُن کی پُراعتماد شخصیت اور وضع داری کی وجہ سے تھا، ان کے چہرے کا یہ سکون و اطمینان اس بات کا غماز بھی تھا کہ پاکستان میں مستقبل کی سیاسی بساط پر اگر وہ گورنر نہ بھی رہے تو کیا ہوا، ان کا دامن بے داغ ہے، انہیں کوئی نہ کوئی ’نوکری یا ذمہ داری‘ مل ہی جائے گی، رہا حکومتی کارکردگی اور عوامی ردِعمل کا سوال تو گورنر صاحب اِس عوامی غیض و غصب سے بھی صاف نکل کر سُرخرو رہیں گے کیونکہ آئینی طور پر اُن کا یہ عہدہ رسمی ہے اور انتظامی معاملات سے اُن کا براہِ راست کوئی تعلق نہیں لہٰذا پاکستان کے عوام کا جس طرح سے معاشی کشتِ خون حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے جاری ہے گورنر صاحب بالواسطہ یا بلاواسطہ اس میں بھی شریک نہیں ہیں۔
گزرے ہفتے گورنر صاحب یوکے کے دورے پر تھے، برطانوی ہاؤس آف لارڈز اور ہاؤس آف کامنز میں پارلیمنٹیرینز سے میٹنگز کے ساتھ ساتھ اسکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ میں بھی انہوں نے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں اور مسئلہ کشمیر، افغانستان سمیت پاک برطانیہ دو طرفہ معاملات پر بھی سیر حاصل گفتگو کی، انہوں نے پاکستان کے برطانیہ میں ہائی کمشنر معظم احمد خان کی طرف سے اپنے اعزاز میں دیے گئے ایک عشائیہ میں برطانوی پاکستانی تاجروں سے بھی ملاقات کی۔ 29نومبر کو لندن میں پاکستانی صحافیوں کے ساتھ ایک پریس کانفرنس بھی کی، اِس سے قبل میری بھی اُن سے ون ٹو ون ایک ملاقات ہوئی، گفتگو کے دوران مجھے لگا کہ اگرچہ افواہوں کے مطابق فی الوقت تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی نہیں ہو رہے لیکن اپنی سیاسی جماعت کی مجموعی کارکردگی سے رنجیدہ خاطر ضرور ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ’’پی ٹی آئی‘‘ کی سیاسی خزاں آن پہنچی ہے لیکن اِس کا برملا اظہار تو انہوں نے نہیں کیا، مگر وہ لب کشائی نہ بھی کریں تو ’’صحافتی عینک‘‘ سے گورنر صاحب کے ماتھے کی شکنوں میں ان کی تشویش کو صاف پڑھا جا سکتا ہے، مذکورہ پریس کانفرنس میں ہمارے ایک ساتھی غلام حسین اعوان نے جب یہ سوال کیا کہ آپ کو تو ہمارا یعنی اوورسیز پاکستانیوں کا نمائندہ بننا چاہئے تھا، آپ کوئی ایسا عہدہ لیتے جس سے ہمارے لیے کچھ کر سکتے تو گورنر صاحب نے صاف کہا ، ’’میں تو سینیٹر تھا چنانچہ یہ عہدہ میں نے اپنی مرضی سے نہیں لیا یہ تو پارٹی کا فیصلہ تھا اور میں نے سر تسلیم خم کیا،‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ درست ہے، مجھے سائیڈ لائن کیا گیا تھا جس کا اندازہ مجھے بعد میں ہوا۔ گورنر صاحب کا یہ کہنا یقیناً کچھ قوتوں کی چشم کشائی کیلئے کافی ہے کہ حالیہ اور پچھلی حکومت نے تین دفعہ برطانوی پارلیمنٹ کے ایوانوں میں بیٹھنے اور میگنا کارٹا کی اس سرزمین کو کما حقہ سمجھنے والے دُر نایاب چوہدری محمد سرور کو پچھلے پانچ سال سے عملی طور پر سائیڈ لائن ہی کیا ہے اور ان سے وہ کام لیا ہی نہیں گیا جس کے وہ اہل ہیں، کوئی پہچان ہی نہیں سکا کہ دو ملکوں (پاکستان، برطانیہ) کی سیاسی کہنہ مشقی نے اُنہیں کس قدر سیاسی توانائی اور ژوف نگاہی دی ہے کہ وہ بھری خزاں میں بھی بہار کا سماں کشید کرنے کی بھرپور صلاحیت اور بےپایاں قدرت رکھتے ہیں، برطانیہ بلکہ بین الاقوامی سطح پر بااثر حلقوں سے اُن کے قریبی تعلقات کیا پاکستان کیلئے سیاسی و معاشی ثمرات کا باعث نہیں ہو سکتے تھے؟
جناب چوہدری محمد سرور بغیر کسی لگی لپٹی کے بےلاگ گفتگو کرنے کے عادی ہیں، مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں گورنر بنے تو تقریباً ڈیڑھ سال بعد میں نے یہ خبر دی کہ چوہدری محمد سرور نے گورنر شپ سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے، خبر شائع ہوئی تو اسی روز انہوں نے کمال شفقت سے مجھے فون کیا اور کہا میں تو استعفیٰ نہیں دے رہا ’’تم نے یہ کیا تیر چلا دیا؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ چوہدری صاحب، میرے ذرائع نے بڑے وثوق سے یہ خبر دی ہے، اس لئے مجھ یقین ہے کہ آپ یہ فیصلہ کر چکے ہیں۔ گورنر صاحب نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا ’’یہ بات درست ہے، تم دیکھ رہے ہو حالات انتہائی دگرگوں ہیں، میری پچھلے ایک ڈیڑھ سال کی ورکنگ کنڈیشن سے بھی تم آگاہ ہو کہ میں نے یہ عرصہ کس کرب میں گزارا ہے، بےبس اور مجبور لوگ داد رسی کیلئے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں میرے پاس آتے ہیں لیکن میں بےبسی کی تصویر بنا رہا، میں ان کیلئے کچھ نہ کر سکا، ادارے خصوصاً نوکر شاہی کا روّیہ انتہائی نامناسب اور بےانصافی پرمبنی ہے، میرے ہاتھ بندھے رہے مجھے کام کرنے ہی نہیں دیا گیا۔ اوورسیز پاکستانیوں کی پاکستان میں خریدی گئی زمین جائیداد پر قبضہ معمول کی بات ہے لیکن قبضہ گروپ مضبوط اور ان کی سرپرستی اعلیٰ ترین حکومتی شخصیات کرتی ہیں‘‘۔ لہٰذا اوپر ذکر کی گئی پریس کانفرنس میں بھی محترم گورنر نے اس حقیقت کو بالکل جھٹلایا نہیں کہ بحیثیت مجموعی پاکستان میں نظام کولیپس (collapse) یا بوسیدگی کا شکار ہو چکا ہے، ہمارے پراسیکیوشن سسٹم میں خرابیاں ہیں ہم عدالتوں و پولیس کے اداروں میں اصلاحات لانے میں ناکام رہے ہیں لیکن وہ پُر امید بھی ہیں کہ آنے والے وقت میں ہم اسے ٹھیک کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ حلیم طبع چوہدری محمدسرور پاکستان کی تاریخ کے وہ واحد گورنر ہیں جنہوں نے گورنر ہاؤس کی عمارت کو اوورسیز پاکستانیوں سمیت عام آدمی کیلئے کھولا وہ حتی المقدور کوشش کرتے ہیں کہ جہاں تک آئین اجازت دیتا ہے، لوگوں کے مسائل حل کریں، یقیناً چوہدری سرور ہی کا یہ دبنگ فیصلہ تھا کہ انہوں نے اپنے گزشتہ دورمیں طاقتوروں سے ٹکر لی اور ’’ایچی سن کالج‘‘ لاہور جو اشرافیہ کا نشان سمجھا جاتا ہے یہاں داخلے کے طریق کار پر ڈٹ گئے یہاں میرٹ کا نظام متعارف کرایا اور جرنیلوں، ججوں ، بیوروکریٹس، وزیروں، صنعتکاروں، جاگیر داروں حتیٰ کہ وزیراعظم تک کی سفارش ماننے سے انکار کر دیا اور فقط میرٹ پر داخلے کی داغ بیل ڈالی۔ چنانچہ چوہدری صاحب ہماری دست بستہ گزارش یہی ہے کہ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ آپ کے اختیارات ہوں یا دیگر مجموعی حالات، آج بھی معاملات جنوری 2015جیسے بلکہ اس سے بھی زیادہ دگرگوں ہیں جب آپ نے گورنر شپ سے استعفیٰ دیا تھا؟ چنانچہ فیصلہ آج بھی آپ نے ہی کرنا ہے جب آپ لندن کی موسمی خزاں سے واپس پاکستان کی سیاسی خزاں کی لپیٹ میں پہنچیں گے تو!