قاتل معاشرہ

عرفان صدیقی
05 دسمبر ، 2021
یاران وطن …محمدعرفان صدیقی
فہیم اکیلا نہیں تھا، اس کے والدین حیات تھے، بھائی بہن بھی موجود تھےاس کے والد ذاتی گھر کے مالک تھے جس کا ایک حصہ کرائے پر دیا ہوا تھا، اس کی اہلیہ کے اہل خانہ بھی موجود تھے، فہیم کراچی کے فیڈرل بی ایریا میں میںدوکمروں کے کرائے کے فلیٹ میں رہائش پذیر تھا پچھلے دو سال سے خراب سے خراب تر ہوتے معاشی حالات نے زندگی مشکل بنادی تھی، وہ کئی ماہ سے فلیٹ کا کرایہ ادا نہیں کرسکا تھا، وہ بار ہ سال کی سب سے بڑی بیٹی اور چار سال کی دوپیاری سی جڑواں بیٹیوں سمیت چھ بچوں کا باپ تھاجن کی اسکول کی فیس ادا نہ کرسکنے کے سبب اسکول سے نام بھی کٹ چکا تھا، فہیم دوسال قبل ایک وائٹ کالر ملازمت سے فارغ کردیا گیا تھا جس کے بعد اسے کہیں نوکری نہ ملی تو اس نے گزر بسر کے لئے بینک سے کچھ رقم ادھار لے کر پرانا رکشا خرید لیا تھاجو آئے دن خراب ہی رہتا تھا،جس کے باعث گھر میں فاقوں کی نوبت آچکی تھی ان حالات نے فہیم کو ذہنی طورپرپہلے ہی مائوف کردیا تھا۔
اب بڑھتی مہنگائی نے چھ بچوں کے ساتھ زندگی کے دن گزارنا بھی مشکل کردیا تھا، وہ اہلیہ کے ساتھ سرکاری اسپتال چیک اپ کےلئے گیا تو ڈاکٹر نے شدید ذہنی ڈپریشن کا مرض بتایا اور دوا لکھ کر دی جسے خریدنے کے پیسے بھی اس کے پاس نہ تھے وہ واپس آیا اہلیہ کو گھر چھوڑا اور اپنا رکشہ نکالا تاکہ شام کو بچوں کے لئے کچھ کھانے پینے کا سامان خرید سکے، لیکن قسمت ایسی کہ یہاں بھی دھوکہ دے گئی رکشہ خراب ہوچکا تھا لہٰذا اس نے گھر کے قریب مکینک کی دکان پر رکشہ ٹھیک کروایا تو سترہ سو روپے کا بل بنا جو فہیم کے پاس نہ تھے، منت سماجت کرکے مکینک سے رقم ادھار کی اور رکشہ لے کر سواریوں کی تلاش میں نکل گیا، کئی گھنٹوں بعد صرف پانچ سو روپے کا ہی دھندہ ہوا تھا کہ رکشے نے پیٹرول ختم ہونے کااعلان کیا، اب اس کے پاس دو ہی راستے تھے کہ پانچ سو روپے کا پیٹرول ڈلوالے یا بھوک سے بلکتے بچوں کے لئےکچھ کھانے پینے کا سامان خرید کر گھر کی راہ لے، فہیم نے کچھ پیسوںکا پیٹرول ڈلوایا اور باقی کا سودا لے کر گھر پہنچا اہلیہ سے بچوں کے لئے کھانا تیار کرنے کا کہا اور کمرے میں جاکر بھائی کو فون کرکے گھربلایا۔
کچھ دیر بعد بھائی فہیم کے پاس پہنچ چکا تھا، فہیم کافی عرصہ سے اسے اپنے مشکل حالات سے آگاہ کرنے کی کوشش کررہا تھا اور اب وہ صوفے سے اتر کر اپنے چھوٹے بھائی کے قدموں میں بیٹھا دھاڑیں مار مار کر رورہا تھا اور اسے اپنی اور بچوں کی تکلیف کا یقین دلا رہا تھا، وہ اپنے چھوٹے بھائی سے التجا کررہا تھا کہ خدارا والد صاحب کو بتائو کہ میرے حالات بہت خراب ہیں، کئی ماہ سے فلیٹ کا کرایہ ادا نہیں کیا، مالک مکان تقاضا کررہا ہے، بچوں کی اسکو ل فیس کی عدم ادائیگی پر اسکول سے نام کٹ چکا ہے، بھائی ابو سے درخواست کر و کہ مجھے کرائے کے فلیٹ سے نجات دلوا کر اپنے گھر میں رہنے کی اجازت دے دیں، کرائے دار سے مکان خالی کرالیں یا ان کے گھر کی بالائی منزل پر جو ایک کمرہ ہے اسی میں اپنے چھ بچوں کے ساتھ رہ لوں گا، بھائی کا دل بھی پسیج چکا تھا اس نے وعدہ کیا کہ والد صاحب سے بات کرے گا کہ آپ کو گھر میں رکھ لیں۔
اسی شام فہیم نے والد صاحب کو بھی فون کیا ان کو بھی اپنے حالات کے بارے میں بتایا لیکن والدصاحب نے گھر میں رہائش فراہم کرنے سے انکار کردیا، فہیم کے لئے اب کوئی سہارا نہ تھا وہ ہر طرف سے مایوس ہوچکا تھا، رات تکلیف میں گزری، اگلی صبح وہ بالکل خاموش تھا نہ جانے کن سوچوں میں گم تھا، دوپہر ہوچکی تھی اس نے بچوں کو پڑوس میں کھیلنے کے لئے بھیجا، اہلیہ کوآرام کا کہہ کر کمرے میں جانے کا کہا اور کمرے کی باہر سے کنڈی لگائی، باہر کا دروازہ کھلا رکھا اور چھت پر پھندہ لگایا اور خاموشی سے اس بے حس دنیا سے رخصت ہوگیا، اسے معاشرے سے اور اپنے خاندان سے نہ جانے کیا کیا گلے ہوں گے، گھر میں کوئی آیا تو صحن میں فہیم کو لٹکا دیکھ کر شور مچایا تو اہلیہ بھی چیخی جو اندر بند تھیں جنھیں باہر نکالا گیا لیکن فہیم اس دنیا سے جاچکا تھا۔
اب اس کے چھ چھوٹے چھوٹے یتیم بچے ہیں جن کی عمریں چارسے بارہ سال کے درمیان ہیں، ان بچوں کی ذمہ داری فہیم کی بیوہ اور اس معاشرے پر ہے، خبر پھیلی تو جے ڈی سی کے معروف سوشل ورکر سید ظفر عباس بھی اس خاندان کی مدد کو پہنچے، جو ہوسکتا تھا کیا اور جو ہوسکتا ہے کریں گے لیکن ان یتیم بچوں کی ذمہ داری پوری معاشرے پر عائد ہوتی ہے سب آگے بڑھ کر اس مظلو م خاندان کی مدد کریں اللہ تعالیٰ آپ سب کی مدد کرے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)