اسلام امن کا دین ہے، اس میں ظلم کی کوئی گنجائش نہیں،علماء

05 دسمبر ، 2021

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”جرگہ“ میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے علمائے کرام نے کہا ہے کہ اسلام امن کا دین ہے اس میں ظلم کی کوئی گنجائش نہیں،سیالکوٹ سانحہ ہمارے لئے بہت بڑے خطرے کی بات ہے، اگر ہر شخص حب رسول کے نام پر خود سزا دینے لگے تو انارکی پیدا ہوجاتی ہے،توہین رسالت روکنے کیلئے قانون کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، ایسے معاملات پر بیرونی دباؤ ہر دور میں آتا رہا ہے،قانون کو ہاتھ میں لینے کا قطعاً کوئی جواز موجود نہیں ہے، اس کی جامع اور مکمل تحقیقات ہونی چاہئے۔پروگرام میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق، جے یوآئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن،صدر وفاقی المدارس العربیہ پاکستان مفتی تقی عثمانی، سربراہ امت واحدہ پاکستان علامہ امین شہیدی، سربراہ جمعیت اہلحدیث پروفیسر ساجد میر، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی طاہر اشرفی،مفتی منیب الرحمٰن اور امیرتحریک لبیک خیبر پختونخوا، ڈاکٹر شفیق امینی نے اظہار خیکیا۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ اسلام امن کا دین ہے اس میں ظلم کی کوئی گنجائش نہیں ہے، ہم ظلم کی ہر شکل کے خلاف ہیں، سیالکوٹ جیسے واقعات ہمارے معاشرے پر بدنما داغ بن جاتے ہیں،سراج الحق کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ الزام لگانے والا خود ہی سزا دیدے، اگر کسی نے جرم کیا ہے تو سزا کیلئے عدالت اور ادارے موجو د ہیں، حکومت سیالکوٹ واقعہ پر تحقیقات کیلئے ایک آزاد کمیشن بنائے،سراج الحق نے کہا کہ کوئی قبول نہیں کرے گا کہ ایک کمرے میں خود الزام لگا کر خود ہی سزا دیدی جائے، ریاست، حکومت اور عدالتوں کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے، فرد کو اس طرح سزا دینے کا حق اسلام نے نہیں دیا ہے، معاشرے کو محفوظ بنانے کیلئے قانون کی عملداری ضروری ہے۔ جے یوآئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اگر ہر شخص حب رسول کے نام پر خود سزا دینے لگے تو انارکی پیدا ہوجاتی ہے، ہماری ریاست اس حوالے سے کوتاہیاں کرتی ہے، ماضی میں ریاست نے ایسے فیصلے دیئے جس سے عوام میں اشتعال پیدا ہوا، یہاں ناموس رسالت کے مرتکب لوگوں کو رہائیاں دی گئیں، مختلف عدالتوں کے فیصلوں کے برخلاف سپریم کورٹ کی سطح پر ایسا فیصلہ دیا گیا جس پر عام آدمی کو اعتماد میں نہیں لیا جاسکا، حکومت نے بھی فخریہ انداز میں کہا کہ ان لوگوں کو باہر بھیج دیا گیا ہے، ریاست اس قسم کے واقعات پر مغربی اور عالمی دباؤ کے بغیر ایمان کے تقاضوں کے مطابق ذمہ داریاں نبھائے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ مجموعی طورپر اس معاملہ میں اصلاح کی ضرورت ہے، اس قسم کے واقعات عالمی برادری کے سامنے اسلام کا غلط چہرہ پیش کرتے ہیں،صدر وفاقی المدارس العربیہ پاکستان مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ سیالکوٹ سانحہ ہمارے لئے بہت بڑے خطرے کی بات ہے، توہین رسالت کوئی معمولی چیز نہیں بہت سنگین جرم ہے،کسی شخص کا دوسرے شخص پر توہین رسالت کا الزام لگا کر خود ہی سزا دینے کا رجحان بہت غلط ہے، ممکن ہے ایسے واقعات توہین رسالت کے قانون کیخلاف فضا بنانے کیلئے ہورہے ہوں، سیالکوٹ واقعہ اس قانون کی وجہ سے نہیں ہوا کسی شخص کا انفرادی فعل تھا، موجودہ حالات میں خارج از امکان نہیں کہ یہ واقعہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہوا ہو۔ سربراہ امت واحدہ پاکستان علامہ امین شہیدی کی گفتگو سربراہ امت واحدہ پاکستان علامہ امین شہیدی نے کہا کہ سیالکوٹ جیسے واقعات پر علماء سے لے کر صاحبان اقتدار و اختیار صرف مذمتی بیانات دیتے ہیں، ہمارا معاشرہ اس انتہا تک کیوں پہنچا اسے گراس روٹ لیول سے دیکھنے کی ضرورت ہے، تعزیتوں اور مذمتوں پر اکتفاق کرنا اپنے آپ کو دھوکا دینے والی بات ہے، ریاست جب تک اپنی پالیسی نہیں بدلتی انتہاپسندی کا سلسلہ نہیں تھمے گا۔ سربراہ جمعیت اہلحدیث پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ توہین رسالت روکنے کیلئے قانون کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، توہین رسالت کا قانون پاکستان کے چند اچھے قوانین میں سے ایک ہے، یہ بات درست ہے کہ بعض لوگ ذاتی عداوت پر ناجائز بہتان تراشی کرتے ہیں، سیالکوٹ میں جو ہوا اس کا کوئی دینی، اخلاقی اور قانون جواز نہیں ہے، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی طاہر اشرفی نے کہا کہ سیالکوٹ واقعہ کی صبح فیکٹری میں کچھ پرنٹ لگے ہوئے تھے جنہیں سری لنکن منیجر اور ان کے کچھ ساتھیوں نے ہٹایا تھا، اس کے بعد کچھ لوگ سری لنکن منیجر کے دفتر میں چلے گئے جہاں ہنگامہ ہوگیا اور یہ بھاگ کر چھت پر چلے گئے، سیالکوٹ واقعہ میں 110افراد گرفتار ہوئے ہیں جس میں 13 مرکزی ملزمان ہیں، پولیس کے مطابق سری لنکن منیجرکارکنوں پر کام کرنے کیلئے سختی سے کام لیتا تھا جس کی اسے یہ سزا دی گئی۔ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ اگر کہیں توہین رسالت ہوئی ہو تو اس کیلئے پولیس اور قانون موجود ہے جس پر عمل ہوتا ہے، متحدہ علماء بورڈ میں ہر ہفتے ایسے معاملات کو علماء دیکھتے ہیں، ایسا کوئی واقعہ ثابت ہوجائے تو ایف آئی آر یا مجرموں کی گرفتاری میں تاخیر نہیں کی جاتی ہے، میرے وزارت سنبھالنے کے بعد کوئی ایک غلط کیس درج نہیں ہوا ہے ۔ طاہر اشرفی نے کہا کہ ایسے معاملات پر بیرونی دباؤ ہر دور میں آتا رہا ہے۔مفتی منیب الرحمٰن نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیالکوٹ میں ایک انتہائی نا خوشگوار سانحہ جو رونما ہوا ہے ہم اس پر تاسف کا اظہار کرتے ہیں اور اس کی شدید مذمت کرتے ہیں کیونکہ ہمارے ملک میں ایک آئینی اور قانونی نظام موجود ہے اگرچہ اس کی شفافیت اور غیر جانبداری پر سوالات اٹھتے رہتے ہیں تاہم اس کے ہوتے ہوئے قانون کو ہاتھ میں لینے کا قطعاً کوئی جواز موجود نہیں ہے۔اس سے معاشرے میں انارکی اور لاقانونیت پھیلتی ہے جوکسی بھی صورت میں ملک و ملت کے مفادمیں نہیں ہے اور عالمی سطح پر بھی پاکستان کا تاثر منفی پیداہوتا ہے۔ امیرتحریک لبیک خیبر پختونخوا، ڈاکٹر شفیق امینی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے تو جو واقعہ ہوا ہے انتہائی قابل مذمت ہے اور اس کی ہمارے تحریک سمیت تقریباًجتنے بھی پاکستان میں مسلمان رہتے ہیں ان کا یہ موقف ہے کہ اس کی جامع اور مکمل تحقیقات ہونی چاہئے ۔جو ہمارے ریاستی ادارے ہیں عدلیہ ہے اور پاکستان میں جو سزا اور جزا کا قانون ہے وہ اتناناقص ہے کہ لوگوں کااس پر سے اعتماد تقریباً اٹھ چکا ہے۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں جس میں ہجوم کے ہاتھوں اس طرح کے قتل ہوئے ہیں۔ لوگوں کو پتہ ہے کہ اگر ہم اس ملزم کو قانون کے حوالے کردیں تو اس کو تحفظ مل جائے گا اور سزا نہیں ملے گی اس کی وجہ سے تقریباً اس طرح کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔