عدالتیں آزاد ہیں آزاد رہیں گی، گرما میں گرمی والا، سرما میں سردی والا فیصلہ نہیں دیتے، فیصلوں کو عدلیہ کا رجحان قرار دینانامناسب، چیف جسٹس

05 دسمبر ، 2021

لاہور ( وقائع نگار خصوصی،اے پی پی ) چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ قانون کی حکمرانی اور بنیادی حقوق کا تحفظ ہمارا کام ہے، عدالتیں آزاد ہیں اور آزاد رہیں گی جج صاحبان موسم گرما میں گرمی اورموسم سرما میں سردی والا فیصلہ نہیں دیتے، فیصلوں کو عدلیہ کا رجحان قرار دینا مناسب نہیں اگر انسانی حقوق کا تحفظ نہیں کر سکتے تو ہم جج رہنے کے قابل نہیں،عدالتوں کو ہر شہری کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا چاہییے ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز پنجاب بار کونسل میں ” انصاف کی فراہمی میں عدلیہ اور وکلاء کے کردار “ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں کیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ماتحت عدالتوں کا بہت برا حال ہے، ماتحت عدالتوں کی طرف حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے،متعلقہ چیف جسٹس صاحبان اس حوالے سے اقدامات کریں، پنجاب بار کونسل کو وکلاء کے خلاف تادیبی کارروائی پر مبارکباد دیتا ہوں وکلاء کا کام ججوں کی معاونت کرنا اور بحث کرنا ہے وکلاء کا کام نہیں کہ ججوں کے ساتھ بدتمیزی کریں اور تشدد کریں،وکیل کو معلوم ہونا چاہیئے کہ کس طرح جج کے سامنے پیش ہونا ہے، وکلاء خود کہتے ہیں کہ عدلیہ ہمارا گھر ہے پھر اپنے گھر میں کیوں ایسا سلوک کرتے ہیں،اگر ایک فیصلہ کسی پارٹی کے خلاف آیا ہے تو اپیل کا حق ہے اپیل میں جائیں، وکلاء نے پڑھنا چھوڑ دیا ہے بار کونسل کی ذمہ داری ہے کہ انرولمنٹ کے وقت وکیل کو آداب سکھائیں وکلاء کو علم ہونا چاہیئے کہ جج اور کلائنٹ کے ساتھ کس طرح کا رویہ رکھنا ہے جس روز بار کونسلیں وکیل کو انرولمنٹ دیتی ہیں انکو علم نہیں ہوتا کہ اس نے کیا کرنا ہے نئے وکلاء کو مشکلات پیش آتی ہیں بار کونسلیں انرولمنٹ کے وقت اپنا کردار ادا کریں وکلاء اور عدلیہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے جو ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہو سکتے وکلاء نے عدالتوں کا تحفظ کرنا ہے وکلاء اور ججوں کو آپس میں لڑنے اور ناراض ہونے کی ضرورت نہیں قانون میں گنجائش ہے کہ وکیل کسی فیصلے کے خلاف اپیل کرے ایک عدالت غلط فیصلہ کرتی ہے تو دوسری اور تیسری عدالت اس کو درست کر دیتی ہے وکلاء کی ذمہ داری ہے کہ ججوں پر ایک حد میں رہ کر تنقید کریں عدلیہ کا کوئی ر جحان نہیں ہوتاجج ہر کیس کی نوعیت کے حساب سے فیصلہ کرتا ہے عدلیہ آزاد ہے آزاد ہی رہے گی وکلاء کی کچھ چیزوں میں ورکنگ ہونا ضروری ہے وکلاء اور ججوں کو ٹینشن فری ہونا چاہیئے بار کونسلو ں کو اپنے وکلاء کی مشکلات کا حل نکالنا ہوگا پوری عدلیہ میں کیسوں کی تعداد بہت زیادہ ہے کسی کو الزام دینا مناسب نہیں پاکستان میں آنے والی وبا ءکی وجہ سے کیسوں کے فیصلوں میں تاخیر ہوئی اور تعداد میں اضافہ ہوا کیسوں کے ڈیڈ لاک کو ختم کرنا چاہتے ہیں ہر سائل کی خواہش ہے کہ اسکے کیس کا جلد فیصلہ ہو وکلاء کیسوں کے جلد فیصلوں کے لیے اپنا کردار ادا کریں عدالتوں میں جھوٹی درخواست کی تعداد بہت زیادہ ہے اس پر وکلاء غور کریں وکلاء جھوٹے کیسوں کی حوصلہ شکنی کریں وکلاء کے اس عمل سے 30 فیصد مقدمہ بازی کم ہو جاے گی وکلاء کو کیسوں میں غیر ضروری تاریخیں لینے سے گریز کرنا ہوگاوکیل پیش نہ ہونے کی صورت میں اپنے متبادل وکیل کا انتظام کریں ، ججوں کی تقرری کے وقت جوڈیشل کمیشن میں وکلاء نمائندوں کو سنا جاتا ہے اب جوڈیشل کمیشن ججوں کی تقرریوں کے وقت مکمل شنوائی کرنے کے بعد جج بناتا ہے اچھے لوگوں کو جج بنا رہے ہیں اور بنائیں گے چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس ججوں کی تقرری کے وقت ووٹ کا حق نہیں ہے ہم نے اچھی روایت ڈال دی ہے امید ہے اب اچھے جج آئیں گے بار کونسلوں کو مسائل کے حل کے لیے اس قسم کے سیمینار کرانے چاہیئیں قانون کی حکمر انی ہمارا کام ہے اسکو چھوڑ نہیں سکتے ملک کے حالات ایسے نہیں ہیں جیسا کہا جا رہا ہے ملک کے ایسے حالات ہوئے تو عدلیہ مقابلہ کرے گی، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد امیر بھٹی نے کہا یہ تقریب ایسا قدم ہے جس میں وکلاء نمائندوں نے ہم سے باتیں شیئر کیں وکلاء کو قانون اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی کے گھر نقب لگائیں اگر وکلاءعدلیہ پر حملہ کریں گے تو کیا انسداد دہشت گردی دفعات نہیں لگے گی وکلاء کو عدلیہ پر حملوں کا لا ئسنس نہیں دے سکتے بار ممبران ذاتی مسائل کے لیے ججوں سے ملتے ہیں منتخب ممبران اس طرح کام کریں گے تو عدلیہ سے پھر کیا توقعات رکھ سکتے ہیں وکلا ءکی چیمبرز پریکٹس ختم ہو گئی ہے جن وکلاء کے پاس چیمبرز نہ تھے وہ جج بنے جن وکلاء نے محنت کی اللہ تعالیٰ نے انکی مدد کی پریکٹس نہ رکھنے والوں کو کون لیگل ایڈوائزر رکھے گا5 سال پریکٹس کرنے والے وکیل کو ڈنڈے سوٹے کی ضرورت نہیں رہے گی ہمیں وکلاء کی چیمبرز پریکٹس کروانے کی ضرورت ہے سسٹم تب چلتا ہے جب وکلاء چیمبرز میں جا ئیں گے بہت سارے چیمبرز ڈنڈے سوٹے والے وکلاء تیار کر رہے ہیں ہم بار کونسل کے ساتھ ہیں وکلاء میکنزم بنائیں وکلا تشدد کو روکنے کے لیے ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے،، وائس چیئر مین فرحان شہزاد نے کہا اس سیمینارر کا مقصد بار اور بنچ میں غلط فہمیاں دور کرنا ہے ہم نے عوام کی توقعات پر بھی پورا اترنا ہے ہم نے عدلیہ اور بار کے لیے بہتر کردار ادا کرنا ہے ہم نے گھوسٹ لا کالجوں اور جعلی ڈگریوں سے پیدا مسائل کو دور کرنا ہے انشا اللہ ان مسائل کو حل کیا جائے گا پنجاب بار کونسل کی ذیلی کمیٹیاں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں ،میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ٹربیونل کو فعال کرنے کا مطالبہ کرتا ہوں عدلیہ میں بھی احتساب کا عمل برابری کی بنیاد پر کیا جائے جج اور وکیل کے حلف ناموں کی پاسداری ضروری ہے ہم عدلیہ کے ساتھ مل کر تمام مسائل کا حل کریں گے اس موقع پر جسٹس ملک شہزاد احمد خان ، چیئر مین ایگزیکٹو کمیٹی حاجی محمد افضل دھرالہ ، ممبران پاکستان بار کونسل طاہر نصر اللہ وڑائچ ، ممبران پنجاب بار کونسل محمود بھٹی ، منیر حسین بھٹی و دیگر وکلاءکی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔